ہوتا ہے۔
جب تکوین اخلاق کے بعد یہ حقیقت ہو تو پھر سوال سامنے آتے ہیں کہ اخلاق کا ہدف کیا ہے؟ اور اخلاق کی منفی اور مثبت تاثیر کیا ہوتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے تین عوامل اہم ترین ہیں :
(۱) عادت (۲) ہیئت (آب و ہوا) (۳) وراثت
اوّل: عادت:
عادات و معمولات کے ذریعے اخلاق بنتے ہیں اور افعال کو کثرت اور استمرار و تکرار سے سرانجام دینے کے ذریعے اخلاق وجود میں آتے ہیں اور شاید جو لوگ اخلاق کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ اخلاق عمومی ارادے کا نام ہے۔ ان کے پیش نظر یہی نکتہ ہوتا ہے۔ جب کوئی آدمی برے ارادے کو ترک کر کے اچھے کام کا ارادہ کرتا ہے۔ یہی عمل وہ باربار دہرانے پر آمادہ ہوتا ہے اور ان وسائل کو بروئے کار لاتا ہے جو آدمی کو ایک ہی فعل بار بار کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں جن سے متاثر ہو کر وہ فعل اس کا محبوب و پسندیدہ بن جاتا ہے اور وہ صدق دل اور خلوص نیت سے وہی عمل انجام دیتا ہے اور اس فعل کے برعکس وسائل سے اسے نفرت ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نفرت اور کسی خاص فعل سے دوری اس کا میلان و رغبت ہی نہیں اس کی طبیعت، مزاج اور خلق بن جاتی ہے۔ پھر اس سے فعل مذکور عادتاً صادر ہوتا رہتا ہے اور وہی اس کا اخلاق کہلاتا ہے۔ وہ فعل سرانجام دینے سے پہلے اسے غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلکہ وہ اس کے لیے ایک نفسیاتی عادت بن جاتا ہے اور اس کی طبعی حالت ہو جاتی ہے۔ اسے وہ فعل سرانجام دینے کے لیے نہ غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ اس کا اپنا کچھ اختیار ہوتا ہے۔
جو شخص ایک، دو یا تین بار سخاوت کرتا ہے اسے سخی نہیں کہا جاتا نہ ہی وہ جو کسی خاص عامل اور سبب کے زیر اثر سخاوت کرتا ہے۔ سخی تو وہ ہوتا ہے جو بالطبع سخاوت کرتا ہے۔ سخاوت اس کی لازمی عادت اور مزاج بن جاتی ہے اوریہ صفت اس کے دل میں راسخ ہوتی
|