سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدے کے مطابق اپنے بیٹے عبداللہ کو اسی ہزار درہم دے دئیے اور باقی مال بیت المال میں جمع کروا دیا۔ جہاں سارا مالِ غنیمت جمع تھا۔[1]
۲۔ مصر کے امیر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک قبطی غلام کو ناحق مارا۔ اس نے اس کی شکایت امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے کی عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کو مدینہ منورہ بلا لیا جبکہ امیر مصر کو بھی ان دونوں کے ساتھ بلا لیا اور قبطی کو حکم دیا کہ وہ امیر مصر کے بیٹے سے قصاص لے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ امیر مصر کی طرف مڑے اور ان سے فرمایا:
’’اے عمرو! تم نے ان لوگوں کو اپنا غلام بنانا کب سے شروع کیا جن کی ماؤ ں نے انہیں آزاد جنا۔‘‘[2]
الاحسان:
لغت میں قباحت و بدسلوکی کے الٹ ہے۔ اس کی مختلف انواع ہیں جو قولی بھی ہیں اور فعلی بھی ہیں ۔ نیز احسان: تمام اعمال و فرائض مکمل خلوص سے پوری طرح بجا لانے کا نام ہے۔ اس میں منافقت یا ریاکاری نہیں ہوتی اور نہ ہی لوگوں سے اچھی تعریف سننے کی خواہش ہوتی ہے۔[3]
اصطلاح شرعی کے مطابق تمام اعمال اللہ کی مراقبت و نگرانی میں کرنے کا نام احسان ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ)) [4]
’’تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔‘‘
|