بچے کے منہ میں ڈال دیتی ہے اور اپنی شفقت اپنے بچے پر ڈال دیتی ہے اور اگر ماں بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو دودھ اس کی چھاتیوں میں بھر جاتا ہے اور اس کا ذخیرہ ہونا ماں کو درد و تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہی حال رحم و ترس کا ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنے سامنے قابل رحم انسان یا کوئی چیز دیکھتا ہے وہ درد سے بھر جاتا ہے اور جب تک وہ مدمقابل کو اپنی رحمت کی چھاؤ ں میں نہ لے لے اسے چین نہیں آتا۔ رحم و ترس کے متعدد درجات و مراتب ہیں۔ رحم کا اعلی درجہ تو یہ ہے کہ رحم کرنے والے شخص کو بھی اسی مقدار میں درد کا شعور حاصل ہو جائے جس قدر وہ درد مصیبت زدہ محسوس کر رہا ہے۔ بہرحال رحم کے درجات گھٹتے گھٹتے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ رحم دل شخص مصیبت زدہ کی کسی طرح خدمت کرتا ہے یا صدقہ و خیرات کے ذریعے اس کی مدد و نصرت کرتا ہے۔[1]
اسلام میں رحم و ترس کی اہمیت و فضیلت:
اسلام دین رحمت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک وصف قرآن حکیم نے یہ بھی بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo﴾ (الانبیاء: ۱۰۷)
’’اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرتے ہوئے۔‘‘
دین اسلام میں حکمت و عقل کے استعمال کے ذریعے ہر مستحق کو اس کا حق بروقت پہنچانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اسی لیے ہمیں قرآن و سنت میں متعدد نصوص ملتی جو اخلاق رحمت سے آراستہ ہونے کی تلقین کرتی ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌo﴾ (التوبۃ: ۱۲۸)
’’بلاشہ یقینا تمہارے پاس تمہی سے ایک رسول آیا ہے، اس پر بہت شاق ہے
|