’’سو تو یہ بیان سنا دے، تاکہ وہ غور و فکر کریں ۔‘‘
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ﴾ (ہود: ۱۲۰)
’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ چیز تجھ سے بیان کرتے ہیں جس کے ساتھ ہم تیرے دل کو ثابت رکھتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (یوسف: ۱۱۱)
’’بلاشبہ یقینا ان کے بیان میں عقلوں والوں کے لیے ہمیشہ سے ایک عبرت ہے۔‘‘
قرآن کریم اور سنت نبوی میں مختلف مواقف و موضوعات کے لحاظ سے قصص کے حجم میں کمی بیشی ہوتی رہی۔
۱۔ قرآن کریم میں مختصر قصے کی مثال:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نْ نُجِی الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (الانبیاء: ۸۷-۸۸)
’’اور مچھلی والے کو، جب وہ غصے سے بھرا ہوا چلا گیا، پس اس نے سمجھا کہ ہم اس پر گرفت تنگ نہ کریں گے تو اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں ۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں ۔‘‘
|