’’اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی نبھا سکے تو اسے شادی کر لینا چاہیے اور جو نہ نبھا سکے تو اسے لازماً روزے رکھنے چاہئیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَلْیَسْتَعْفِفْ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ (النور: ۳۳)
’’اور لازم ہے کہ حرام سے بہت بچیں وہ لوگ جو کوئی نکاح نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘
گویا اسلام نے زنا کا علاج نکاح کے ذریعے کیا ہے کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکاتا ہے اور شرم گاہ کے لیے مضبوط قلعہ ہے۔
جو نکاح کی قدرت نہ رکھتا ہو تو روزہ اس کا بہترین علاج ثابت ہوتا ہے۔ تاہم دیگر عبادات اور اسلامی تربیت کی موجودگی میں فضائل سے بھرپور شخصیت وجود میں آتی ہے۔ پھر بھی اگر کسی سے گناہ کا ارتکاب ہو جائے تو پکڑے جانے کی صورت یا اعتراف جرم کے بعد اس پر حد قائم کی جائے گی۔
د: حد شراب نوشی کی حکمت:
شراب ام الخبائث ہے۔ برائی کا راستہ ہے اور باہمی بغض و عداوت پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۹۰-۹۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے
|