چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًاo﴾ (الاحزاب: ۲۱)
’’بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔‘‘
مکارم اخلاق کے عنوان کے تحت ہم عدل، احسان، قرابت داروں پر خرچ کرنا۔ پھر غصہ پی جانا، غلطی کرنے والے کو معاف کرنا، رحم کرنا، شرم و حیا، عفت و عصمت، الصدق، امانت، ایفائے عہد، صبر، حلم اور آخر میں تواضع پر اجمالی گفتگو کریں گے۔
العدل:
لغوی طور پر عدل سے مراد ہے کہ لوگ جسے مستقیم سمجھیں اور یہ ظلم کی ضد ہے اور اسی سے اعتدال اور توسط ہے۔ جو دو حالتوں اور دو معاملات کی درمیانی راہ ہوتی ہے جو دونوں قبیح ہوتی ہیں ۔ اسی معنی میں کہا جاتا ہے: معتدل مزاج، گرمی اور سردی کے درمیان۔
ہر وہ چیز جو مناسب ہو وہ معتدل کہلاتی ہے۔ اسی سے خلق کریم مشتق ہے جو اسراف اور بخل کے درمیان ہے اور صفت شجاعت بزدلی اور احمقانہ دلیری کے درمیان ہے۔[1]
اصطلاح میں العدل:
ہر وہ عقیدہ و شریعت جو فرض ہو اور ظلم و زیادتی کو ترک کرنا یا عدل ظلم و جور و جفا کی قد ہے اور ایسے دو معاملات کے درمیان و توسط کو عدل کہتے ہیں جو دونوں قبیح اور مذموم ہوں ۔ اسی لیے لغوی معانی میں عدل اصطلاحی معانی میں عدل کے موافق ہے۔[2]
قرآن کریم میں العدل کی مثالیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
|