گیا: کیا جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ۔‘‘
سچ کے لیے لازم ہے کہ وہ قول و عمل میں ہو اور اس کی درج ذیل شروط ہیں :
۱۔ سچ بولنے والا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی نیت کرے وگرنہ وہ اپنی دلی نیت کے اعتبار سے جھوٹا ہو گا اور لوگوں کی نظروں میں اگرچہ سچا سمجھا جائے۔
گزشتہ صفحات میں عمل میں اخلاص نیت کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث تحریر کر دی گئی ہیں ۔
۲۔ سچ بولنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے قول میں باعزم ہو اور بوقت ضرورت اپنے عمل کے ذریعے اپنے قول کو پورا کرے۔
۳۔ خلوصِ نیت اور عمل صادق کے ذریعے وہ اپنا وعدہ پورا کرے۔[1]
سچ پر آمادہ کرنے والے اسباب درج ذیل ہیں :
۱۔ عقل سلیم:
عقل سلیم ہی انسان کو جھوٹ کی قباحت کے متعلق بتاتی ہے کہ اس میں کوئی نفع نہیں اور نہ ہی جھوٹ نقصان سے بچا سکتا ہے۔ اسی طرح عقل سلیم انسان کو مستحسن فعل کی طرف دعوت دیتی ہے اور اسے قبیح افعال کے ارتکاب سے روکتی ہے۔
۲۔ الدین الصحیح:
صحیح دین ہی ہم پر صدق کی اتباع اور جھوٹ سے کنارہ کشی لازم کرتا ہے کیونکہ شریعت ایسی چیز یا فعل کی رخصت نہیں دیتی جس سے عقل سلیم منع کرتی ہو۔ بلکہ شریعت تو عقل سلیم کے تقاضوں سے بڑھ کر جھوٹ سے منع کرتی ہے چونکہ شرع میں جھوٹ سے ڈرایا گیا ہے اگرچہ اس کے ذریعے نفع حاصل ہو یا نقصان سے بچاؤ ہو۔ جبکہ عقل سلیم تو صرف اس لیے جھوٹ سے منع کرتی ہے کہ جھوٹ سے فائدہ نہیں ہوتا اور جھوٹ نقصان سے بچانے کا سبب نہیں بنتا۔
۳۔ مروّت:
|