روی اور انحراف سے اسے روکتی ہے جو اس کے کردار اور اخلاق پر داغ لگانے والا ہو اور جو انسان اپنے جذبات پر قابو رکھتا ہو وہ طاقتور انسان شمار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ))
’’بہادر وہ نہیں جو مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لے۔‘‘
اسلام نے صفت حلم اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے:
حلم کی بڑائی اور اس کے عظمت حکم اور وقار کی اہمیت جو حلم سے مزین ہو، کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمارے لیے مشعل راہ ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اشج عبدالقیس کے لیے فرمایا تھا:
((اِنَّ فِیْکَ خَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ الْحِلْمُ وَ الْاَنَاۃُ)) [1]
’’بے شک تمہاری دو خوبیاں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ (۱)بردباری اور (۲) وقار۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و وقار کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ہے:
((بَالَ اَعْرَابِیٌّ فِی الْمَسْجِدِ فَقَامَ النَّاسُ اِلَیْہِ لِیَقَعُوْا فِیْہِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم : دَعُوْہُ، وَ اَرِیْقُوْا عَلٰی بَوْلِہٖ سِجْلًا مِنْ مَائٍ، فَاِنَّکُمْ بُعِثْتُمْ مُبَشِّرِیْنَ وَ لَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ)) [2]
’’ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگ اسے روکنے کے لیے دوڑے تو
|