اس فرمان: ﴿ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا﴾ (النساء: ۵۸) ’’کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔‘‘ میں دین اور شریعت کے تمام آداب شامل ہیں ۔
خیانت سے کیا مراد ہے؟
جھوٹ اور وعدہ خلافی بھی امانت میں خیانت کی ایک صورت ہے۔ کیونکہ خیانت میں تمام بری خصلتیں آ جاتی ہیں ۔ اسی لیے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خائن کو منافق کہا گیا ہے۔[1]
ہماری تاریخ اسلامی میں امانت کی ادائیگی اور رکھوالی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ یہ بھی ایک مثال ہے جو طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنے پاس بیت المال کو وہی حیثیت دی ہوئی ہے جو یتیم کے مال کی ہوتی ہے۔ اگر میری ضرورت اس کے بغیر پوری ہو گئی تو میں اس سے اپنے آپ کو بچاتا ہوں اور اگر اس کے بغیر میرا گزارا نہ ہو تو میں معروف طریقے سے اس میں سے لیتا ہوں اور آخر میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’جب تک امام المسلمین اللہ کے حقوق ادا کرتا رہے گا رعایۃ بھی امام کے حقوق ادا کرتی رہے گی۔ لہٰذا جب امام اپنے واجبات ذمہ داری کے ساتھ ادا کرے تو تم بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرو۔‘‘
ایفائے عہد کی اہمیت و فضیلت:
شریعت میں عہد کو میثاق بھی کہتے ہیں ۔ اصطلاحی طور پر معاہدہ دو فریقوں یا دو اشخاص کے درمیان ہوتا ہے اور ایک جانب سے یہ ذمہ داری قبول کی جاتی ہے کہ وہ وعدہ ایفا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ﴾ (آل عمران: ۱۸۷)
’’اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت
|