Maktaba Wahhabi

327 - 370
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘ حقوق العباد سے مراد انسان کے دوسرے انسانوں کے ساتھ معاملات ہیں ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ حسن معاملہ کرے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے اور اس قانون کا اطلاق انسان کے اپنے رشتہ داروں اور ہر درجے کے اپنے پڑوسیوں کے لیے ہوتا ہے۔ بلکہ پورے معاشرے کے لیے باہمی تعلقات قائم رکھنے کا یہ سنہری اصول ہے۔ ہر انسان معاشرے میں رہتے ہوئے، جب اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی بحسن و خوبی کرے گا۔ اپنے وعدے وفا کرے گا۔ تو معاشرہ پرامن رہے گا۔ وہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔ ہر انسان اپنے ہر عمل میں مخلص ہو گا اور دوسروں کے ساتھ ہر معاملہ امانت داری کے ساتھ کرے گا۔ چاہے وہ کسی پیشے سے وابستہ ہو اور معاشرے میں اس کی کوئی بھی ذمہ داری ہو۔[1] قول ماثور میں ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس آدمی کے عمل سے محبت کرتا ہے جو چاہے کہ وہ یہ عمل پوری دیانت داری سے کرے۔ گویا خلوص و دیانت داری کے ساتھ کیا جانے والا ہر عمل امانت میں سے ہے۔ کسی فقیہ کا قول ہے: ’’بندے کا خلوص دل سے عبادت کرنا بھی امانت ہے اور اپنے اوقات سے کماحقہٗ فائدہ اٹھانا بھی امانت ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے اپنی عمر کہاں خرچ کی؟‘‘ ہر فرد کا اپنی مسؤ لیت کو خلوص سے ادا کرنا بھی امانت ہے اور ہر مدرس اور ہر طالب علم کا دیانت داری کے ساتھ پڑھنا پڑھانا بھی امانت ہے۔ امانت کا تقاضا ہے کہ حکام اپنی ذمہ داریوں کو پوری تندہی سے ادا کریں اور وہ اپنی بوجھل ذمہ داریوں کا احساس کریں اور رعایا کے حقوق دیانت داری سے ان تک پہنچائیں ۔ اسی لیے مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter