اس مسؤ لیت کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمان گناہ کے بارے میں جواب دہ نہیں بلکہ گناہ مٹانے کے بارے میں جواب دہ اور ذمہ دار ہے کیونکہ اخلاق کا مقصد دنیوی و اخروی سعادت ہے اور وہ تب ہی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان دوسروں کو شر اور گناہ سے بچا لے اور اس کا گناہ سے بچنا اور دوسروں کو بچانا دو طرح سے ممکن ہے کہ وہ خود بھی گناہ سے بچے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرے اور اسی بات کی تاکید کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ترغیب دی گئی اور اسے مشروع کر دیا گیا۔[1]
مذکورہ بالا بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہیں گے کہ شخصی جواب دہی ہو یا صرف اخلاقی جواب دہی ہو اور اجتماعی جواب دہی ہو یا دوسروں کے سامنے جواب دہی ہو وہ بالاولیٰ دینی جواب دہی ہو گی کیونکہ جب ہم کوئی ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو وہ اخلاقی جواب دہی ہی ہوتی ہے۔[2]
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِo﴾ (المائدۃ: ۷)
’’اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو اور اس کا عہد جو اس نے تم سے مضبوط باندھا، جب تم نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اخلاقی جزا و سزا کی تفصیل اخلاقی جواب دہی کا تقاضا ہے کہ اس کے نتیجے میں ثواب و اجر یا عقاب و سزا بھی ہو اور اس بات کا تقاضا ہے کہ اخلاقی جزا و سزا کا مفہوم، اس کی انواع کی تعریف اور اس کے خصائص کا تعارف کروا دیا جائے۔
(اول) اخلاقی جزا و سزا کا مفہوم:
|