اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے۔‘‘
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر بنو اسرائیل کے تذکرہ میں ان سے لیے جانے والے میثاق کو یاد کرایا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو وعدے کیے تھے سب کو توڑ ڈالا اور بار بار وعدہ خلافی کی۔ لہٰذا ان پر حکم عذاب نافذ ہو گیا۔ سورۂ مائدہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایفائے عہد کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ۵ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُo﴾
(المائدۃ: ۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! عہد پورے کرو۔ تمھارے لیے چرنے والے چوپائے حلال کیے گئے ہیں ، سوائے ان کے جو تم پر پڑھے جائیں گے، اس حال میں کہ شکار کو حلال جاننے والے نہ ہو، جب کہ تم احرام والے ہو، بے شک اللہ فیصلہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کھانوں کا تذکرہ کیا۔ اس طرح واضح ہوتا ہے کہ انسان کا اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو ایفا کرنا بھی واجب ہے۔ اسی طرح ایک انسان کا اپنے جیسے ایک یا زیادہ انسانوں سے کیے ہوئے وعدے بھی پورے کرنا ضروری ہے اور یہ ہر فرد سے مطلوب ہے کہ اس کا کیا ہوا وعدہ جب تک اللہ تعالیٰ کی معصیت کا نہ ہو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
ایفائے عہد اہل ایمان کی صفت ہے اور اس کی ضد نقض عہد اور وعدہ خلافی ہے جو منافقوں کی صفت ہے۔ گزشتہ صفحات میں امانت کے تذکرے کے ضمن میں ایسی دو احادیث تحریر ہو چکی ہیں جو درج بالا رائے کی تائید و تاکید کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد کو بطور مسؤ لیت پیش کرتے ہوئے فرمایا۔
﴿ وَ اَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤ لًاo﴾ (الاسراء: ۳۴)
|