علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: بے شک احسان ہر مندوب فعل کو کہتے ہیں اور ہر خلق کریم میں عدل بھی شامل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم بھی دیا۔ اس کی تعریف بھی کی اور اس کی ترغیب بھی دلائی۔ اسی سے ضمیر مطمئن ہوتا ہے اور انسان کو دلی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا:
﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی﴾ (النحل: ۹۰)
’’بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
تو اس سے اس کی مراد ہر فضیلت اور ہر حسن خلق ہوتا ہے۔[1]
احسان کے متعدد معانی اور دلالات ہیں :
۱۔ عبادت میں اللہ کی مراقبت کا عقیدہ یعنی ہر قول و عمل میں خلوص کو مدنظر رکھنا احسان ہے۔
۲۔ معاملات کو احسن طریقے سے طے کرنا۔
۳۔ خوش حالی و تنگ دستی ہر دو حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا۔
۴۔ بداخلاقی کرنے والے سے درگزر کرنا وغیرہ۔
اس سے ہمارے لیے واضح ہوتا ہے کہ احسان کی متعدد صورتیں اور کیفیات و حالات ہوتے ہیں بہرحال ہر موقع پر خیرخواہی کو مقدم کرنا احسان ہے۔
قرآن کریم میں دو سو نوے مقامات سے زیادہ مقامات پر احسان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[2]
اسی طرح احسان کا دیگر اعمال خیر کے ساتھ بھی قرآن میں بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ کی راہ میں خوش حالی و تنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۹۵)
’’اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو
|