درج بالا بحث کی بنیاد پر احسان مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔[1]
اللہ واحد قہار کی عبادت میں احسان کا درجہ کیسے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابقہ حدیث میں واضح ہے:
((اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ)) [2]
’’تم اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ نے درج بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:
’’اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ہم میں سے کوئی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سبحانہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی پوری نماز میں میں خشوع و خضوع اور حسن اتباع کا ایک ذرہ بھی ترک نہیں کرے گا اور اپنے ظاہر و باطن کو اکٹھا کرے گا۔ تاکہ احسن طریقے سے اپنی نماز مکمل کرے۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم تمام احسوال میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو جس طرح اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کرتے۔‘‘ چنانچہ عبادت کو مکمل اور احسن انداز میں اسی لیے مکمل کیا گیا کیونکہ بندے کے علم میں تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس حال میں بندہ ذرا بھر کمی کوتاہی نہیں کر سکتا اور یہی کیفیت اس وقت بھی موجود ہونی چاہیے کہ جب بندے کو معلوم ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے اس کے تقاضوں کے مطابق عبادت کرنا چاہیے۔‘‘[3]
اپنے سے کم تر لوگوں کے ساتھ احسان کی صورت یہ ہے کہ ان کی مالی طور پر مدد کی
|