Maktaba Wahhabi

166 - 370
عزالدین بن عبدالسلام کہتے ہیں : بعض اوقات مصالح کے اسباب بظاہر مفاسد معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کا حکم اس لیے نہیں دیا جاتا یا وہ مباح اس لیے نہیں ہوتے کہ وہ مفاسد ہیں بلکہ اس لیے کہ ان کو قائم کرنے میں مصالح پوشیدہ ہوتے ہیں جیسے ہاتھ کاٹنا… اسی طرح دیگر شرعی سزائیں مطلوب و مقصود نہیں کیونکہ وہ مفاسد ہیں لیکن ان کے نفاذ کا مقصد مصلحت کا حصول ہوتا ہے۔ جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا اور زانی کو سنگ سار کرنا اور کوڑے مارنا وغیرہ۔ ان ظاہری مفاسد کو مصالح بطور مجاز کہا جاتا ہے۔ یعنی سبب کو مسبب کا نام دیا جاتا ہے۔[1] درحقیقت شریعت اسلامیہ جرائم سے منع کرنے کے لیے متعدد وسائل استعمال کرتی ہے۔ کیونکہ جرائم کے معاشرے میں برے نتائج ظاہر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ وسائل درج ذیل ہیں : (۱)… نفس انسانی کی تربیت، طہارت اور عبادت کی بنیادوں پر کرتی ہے اور اسے روحانی طور پر مہذب کرتی ہے۔ (۲) عمومی طور پر واضح بھلائی پر مبنی رائے عامہ کو ہموار کرتی ہے اور معاشرے میں شر و فساد کو پھیلنے سے روکتی ہے۔ معاشرے میں حیا بطور اجتماعی وصف کے پھیلتا ہے، جس کے لیے ابتدا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کی جاتی ہے۔ (۳) ان دونوں بنیادی وسائل کے بعد تیسرا اور آخری وسیلہ عقوبات کا نفاذ ہے کیونکہ سزاؤ ں کے نفاذ کے ذریعے بداخلاق لوگوں کو جہاں سزا ملتی ہے اور خوف لاحق ہوتا ہے، وہیں معاشرہ ان سے عبرت حاصل کرتا ہے۔[2] اسی طرح اسلام جرم کی نشر و اشاعت سے روکتا ہے اور اس پر پردہ پوشی کی ترغیب دلاتا ہے۔ تاکہ معاشرے کو ان ردی اخلاق کے ذریعے اذیت نہ دی جائے۔ یا شریفانہ نفوس ان گناہوں کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا نہ ہوں اور غیرت مند لوگوں کی آنکھیں میل کچیل سے نہ بھر دی جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter