۲۔ وقت جانے کے بعد پریشانیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں بشرطیکہ انسان صبر کرے اور واویلا نہ کرے۔
۳۔ بے شک ہر انسان پر جتنے بھی مصائب و شدائد آئیں اسی دنیا میں بہت انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مصائب و مشکلات ہوتی ہیں اور سیدنا ایوب علیہ السلام کی ایک دعا ماثورہ یوں ہے:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلٰی بِہٖ کَثِیْرًا مِّنْ عِبَادِہٖ))
’’اس اللہ کی تعریف جس نے مجھے ہر بلا سے عافیت دی کہ جن میں اپنے بے شمار بندوں کو اس نے مبتلا کر دیا۔‘‘
۴۔ یہ کہ وہ دوسروں کی مشکلات کو دیکھ کر اپنے دل کو مضبوط کرے اور معذورین اور مصیبت زدوں کو دیکھ کر اپنا حوصلہ بڑھائے۔ تاکہ اس پر آئی ہوئی مصیبت کی شدت سے کم محسوس ہو۔
۵۔ ہر انسان کو علم ہونا چاہیے کہ اس کی مسرت کے ساتھ دوسروں کی مشکلات بھی ہیں اور اس کے غموں کے ساتھ دوسروں کی مسرتیں بھی ہیں ۔
۶۔ ہر انسان کو علم ہونا چاہیے کہ نعمتیں ضرور زائل ہو جانے والی ہیں اور ایک ہی حال پر دوام محال ہے۔
۷۔ ہر انسان کو علم ہونا چاہیے کہ اس پر آنے والی مصیبتیں اس کے فضل کی دلیل ہیں اور اس کی ابتلا اس کی بزرگی کی علامت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال محال ہے اور نقص لازم ہے اور امور کی حقیقت ان کی ضد سے معلوم ہوتی ہے۔
۸۔ شدائد و مصائب پر صبر کی تمرین اس کی زندگی میں اسے فائدہ دے گی اور اس کی شخصیت کو تقویت پہنچائے گی اور اس کے حالات سے نصیحت حاصل ہو گی اور وہ اپنی خوش حالی سے دھوکہ نہیں کھائے گا۔ کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ نعمتوں کا دوام محال ہے۔[1]
|