Maktaba Wahhabi

356 - 370
اس کی رغبت ہو اس وقت وہ باوقار بن جائے اور جب اس کی اسے ضرورت ہو تو وہ اس سے صبر کرے ایسی صورت میں اس سے اندھی دہشت ختم ہو جائے گی اور اس کی حیرت اختتام پذیر ہو جائے گی وہ رشد و ہدایت والی راہ پا لے گا اور اپنا مقصد پہچان لے گا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ)) [1] یعنی حیرت کے اندھیرے چھٹ جائیں گے اور حقائق الامور واضح ہو جائیں گے۔ ۶۔ جو مصیبت آ جائے یا کوئی خوف نازل ہو جائے ایسی حالت میں صبر ہی سے حل اور چھٹکارے کی تجاویز حاصل ہوتی ہیں اور صبر ہی دشمن کے مکر و فریب سے راہ نجات دکھاتا ہے۔ کیونکہ جو قلیل الصبر ہو اس کی رائے کمزور ہوتی ہے اور اس کا واویلا بڑھ جاتا ہے اور اس کے ہموم اسے پچھاڑ دیتے ہیں اور وہ غموں کا شکار بن جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo﴾ (لقمٰن: ۱۷) ’’اور اس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے، یقینا یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔‘‘[2] مصائب و شدائد کی تخفیف کے اسباب کے متعلق ماوردی نے لکھا ہے: ۱۔ تو موت کو یاد کر کیونکہ اس فانی دنیا کی ہر چیز باعث ذلیل ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے دنیا کے متعلق فرمایا: ’’دھوکے باز، ضرر رساں اور فانی۔‘‘ کسی دانشور نے کسی عباسی خلیفہ کو دنیا کے متعلق کہا: ’’جب یہ آتی ہے تو چلی جاتی ہے۔‘‘ عمرو بن عبید نے کہا: ’’دنیا کی لالچ لامحدود ہے اور آخرت ابد الآباد تک ہے۔‘‘
Flag Counter