Maktaba Wahhabi

355 - 370
خلوص دل سے اطاعت ہے اور اسی طرح دین صحیح ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے اچھی جزا ملنے کی توقع ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍo﴾ (الزمر: ۱۰) ’’صرف صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اے وہ شخص جو دنیا سے وہ کچھ مانگتا ہے جو اسے ملنے والا نہیں ! کیا تو امید کرتا ہے کہ تجھے آخرت سے وہ کچھ ملے گا جو تو اس سے مانگتا نہیں اس قسم کا صبر اللہ تعالیٰ کے خوف سے ملتا ہے۔‘‘ ۲۔ انسان کے مختلف اوقات و حالات کے تقاضے کے مطابق صبر کرنا۔ جیسے غم و اندوہ اور صدمات کے لمحات، صبر کی اس قسم پر احسن جزا کا وعدہ ہے۔ ۳۔ امید بھری رغبت کے باوجود جو چیز نہ مل سکے اس پر صبر کرنا اور جس چیز کے ملنے سے امید افزا مسرت اصل ہونی تھی اس کو نہ پا کر صبر رنا اور اس کے بعد دل کو تسلی دینا بھی صبر ہے۔ لیکن ناامیدی کے بعد افسوس کرنا حماقت ہے۔ ۴۔ جس مصیبت کے آنے سے انسان ڈرتا ہو یا جس کے آنے سے اسے رسوائی کا ڈر ہو اس پر صبر کرنا اور جب تک کوئی مصیبت آ نہ جائے اس کے متعلق جلد بازی نہ کرنا کیونکہ اکثر اوہام جھوٹے ہوتے ہیں اور عموماً اس خوف کی پیداوار ہوتے ہیں جس سے انسان بچ سکتا ہے۔ ۵۔ انسان کو جس چیز کے حصول میں دلچسپی ہو اور وہ اسے ملنے کی امید ہو اس سے صبر کرنا اور اگر اسے اس نعمت کے ملنے کا مکمل یقین ہو اور اس کے متعلق معلومات کے حصول کی اسے تمنا ہو اور اس کے حصول کے تمام راستے اس پر بند ہو جائیں اور اس کی حرص و طمع کی آگ بجھ جائے تو وہ اس کی امید سے بہت دور ہو جائے گی اور اسے کڑی آزمائش برداشت کرنا پڑے گی اور جب
Flag Counter