ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا اور ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلی کو عذاب دیا اور پرندوں پر کس قدر رحمت کی گئی اور انسان، حیوان اور پرندوں کو کھانا اور چارا یا دانہ دنکا کھلانے کی ترغیب دی گئی۔ گویا ایمانی رحمت کی حدود انسان تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار حیوانات تک بھی پھیلا ہوا ہے اور ہر قسم کی رحم دلی کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ اگرچہ وہ کسی معمولی اور بھوک و پیاس کی شدت سے متاثر کسی حیوان یا پرندے کے ساتھ ہی ہو۔
اس رحمت کے ساتھ ان لوگوں اور ان اقوام کی رحم دلی کے کھوکھلے دعووں کی کیا نسبت ہے جو حیوانات اور پرندوں کے ساتھ رحم دلی اور حسن سلوک کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور اسے انسان کی معراج شمار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی سیاسی مصلحتوں اور اقتصادی مفادات کے لیے انسانوں سے بھرے ہوئے ممالک تاخت و تاراج کر دیتے ہیں اور وہ نہ کسی بچے پر رحم کرتے ہیں نہ بوڑھے پر، نہ کسی مریض پر اور نہ کسی عورت پر، نہ ان کے نزدیک کسی عبادت گاہ کا کوئی احترام ہوتا ہے اور نہ کسی آسمانی صحیفے کا۔ وہ ہر وقت اور ہر جگہ پر ہر قسم کی آتش و آہن سے لیس ہو کر امتیں ، نسلیں اور قومیں تباہ کر دیتے ہیں اور آن واحد میں لہلہاتی فصلیں ، پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے باغات اور سالہا سال کی محنت سے بنائے ہوئے معبد و مکانات اور لاتعداد پرند و چرند فنا و تباہ کر دیتے ہیں ۔ ان کی رحم دلی کے دائرے ان کے اپنے قرابت داروں اور چاہنے والوں تک ہی محدود ہیں ۔
جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے پیروکاروں کا دائرہ رحمت لامحدود و وسیع ہے۔ وہ نہ صرف اہل ایمان کو آپس میں باہمی محبت، رحم دلی اور حسن سلوک و شفقت و رأفت سے رہنے کی تلقین کرتیڑ ہیں بلکہ وہ ہر جان دار پر رحم دلی اور نرم روی کا درست دیتی ہیں ۔
اسلامی رحمت رشد و ہدایت سے مزین رحمت ہے وہ احمقانہ اور جاہلانہ رحمت نہیں ہے کہ رحمت کے تقاضوں کو پامال کر کے رحمت کی جائے۔ بعض حالات میں سختی اور تشدد دراصل رحمت کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسے ایک باپ اپنی الواد کی تربیت کے دوران ان پر سختی کرتا ہے اور ڈاکٹر اپنے مریض کے علاج کے دوران اس کی ٹانگ یا ہاتھ کاٹ دیتا ہے اور اہل ایمان،
|