Maktaba Wahhabi

361 - 370
تربوی حکمت کی وضاحت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آداب مسجد کی تعلیم دی۔ نیز یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم، نرمی اور حسن سیاست پر دلالت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وہ خلق عظیم ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ بنا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اپنے اوپر فرض کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم والوں کے لیے بددعا نہیں کی جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آپ ان کے لیے بددعا کرنے کیاستطاعت رکھتے تھے تاکہ وہ ہلاک و برباد ہو جائیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلاح کی امید میں حلم سے کام لیا یا ان کی صالح اولاد کی امید میں آپ نے حلم کا مظاہرہ کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ((اَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ لِمَلِکِ الْجِبَالِ لَمَّا جَائَ ہٗ عَارِضًا عَلَیْہِ اَنْ یَطْبِقَ عَلَیْہِ قَوْمَہُ الْجَبَلَیْنِ الْمُحِیْطَیْنِ بِمَکَّۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم : بَلْ اَرْجُوْ اَنْ یُخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ اَصْلَابِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہٗ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا)) [1] پہاڑوں کا فرشتہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پیشکش کی کہ مکہ کے اردگرد دو پہاڑوں کو آپس میں ملا کر آپ کی قوم کو ان کے درمیان کچل دیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ نکالے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘ درج بالا احادیث و واقعات کی روشنی میں ہمیں بخوبی علم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید اور ہلاکت خیز حالات میں بھی کس قدر حلیم اور باوقار تھے۔ گویا کہ حلم حسن اخلاق کا سردار ہے اور اس کے سب سے زیادہ حق دار عقل مند لوگ ہیں ۔ کیونکہ اس میں عزتوں کی
Flag Counter