اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَo فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَo﴾ (المعارج: ۱۹-۳۲)
’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔ وہ جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔ سوال کرنے والے کے لیے اور (اس کے لیے) جسے نہیں دیا جاتا۔ اور وہ جو جزا کے دن کو سچا مانتے ہیں ۔ اور وہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں ۔ یقینا ان کے رب کا عذاب ایسا ہے جس سے بے خوف نہیں ہوا جا سکتا۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں پر، یا جس کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں ، تو یقینا وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ۔ پھر جو اس کے علاوہ کوئی راستہ ڈھونڈے تو وہی حد سے گزرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی امانتوں کا اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں ۔‘‘
قرآن کریم میں بعض مقامات پر تو امانت محدود معانی میں استعمال ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِہٰنٌمَّقْبُوْضَۃٌ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳)
’’اور اگر تم کسی سفر پر ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو ایسی گروی لازم ہے جو قبضے میں لے لی گئی ہو، پھر اگر تم میں سے کوئی کسی پر اعتبار کرے تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ادا کرے اور اللہ سے ڈرے۔‘‘
بعض مقامات پر لامحدود معانی میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے وہ فرامین ہم تحریر کر چکیے ہیں جن میں تکالیف شرعیہ کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں
|