’’جنت میں چغل خور اور جھوٹا شخص نہیں جائے گا۔‘‘
فائدہ:… صاحب کتاب کے نزدیک ’’القتات‘‘ جھوٹے اور چغل خور کو کہتے ہیں ۔ ماوردی نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ ’’القتات‘‘ چغل خور اور لوگوں میں فساد پھیلانے والے کو کہتے ہیں اگرچہ وہ سچی بات ہی کرے۔
کیونکہ وہ غیبت، چغل خوری، دھوکہ دہی اور لوگوں کے اموال، احوال اور منازل کے متعلق زبان درازی کرتا ہے۔
’’الدیوث‘‘ اسے کہتے ہیں جو مرد و زن کے اختلاط کو دیکھ کر غیرت نہ کرے۔[1]
شیخ محمد غزالی مذموم جھوٹ کے بارے میں کہتے ہیں :
۱۔ حکمرانوں کا رعایا پر جھوٹ بولنا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ لَا یُزَکِّیْہِمْ …قَالَ مُعَاوِیَۃُ: وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْہِمْ… وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ: شَیْخٌ زَانٍ، وَ مَلِکٌ کَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُّسْتَکْبِرٌ)) [2]
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین اشخاص سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا … راوی حدیث معاویہ نے کہا: نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے … بوڑھا زانی، جھوٹا حاکم، متکبر فقیر۔‘‘
ب: تاجروں کا جھوٹ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا فَاِنْ صَدَقَا وَ بَیَّنَا، بُوْرِکَ فِیْ بَیْعِہِمَا وَ اِنْ کَذَبَا وَ کَتَمَا مُحِقَ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا)) [3]
’’خرید و فروخت کرنے والے بااختیار ہوتے ہیں جب تک وہ جدا نہ ہوں اگر
|