دو۔ تم اس کا پیشاب منقطع نہ کرو۔ پھر انہوں نے اسے بلایا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا بے شک مساجد میں ایسے کام مناسب نہیں ۔ پیشاب اور نجاست وغیرہ۔ بلکہ یہ تو اللہ کے ذکر، نماز اور قراء ت قرآن کے مقامات ہیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تمہیں بشارت دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہے تم لوگوں پر تنگی ڈالنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔ اس پر تم پانی کا ڈول بہا دو۔ وہ بدو کہنے لگا: اے اللہ تو مجھ پر اور محمد پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے تو یقینا ایک وسیع چیز کو بہت محدود کر دیا ہے۔‘‘
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی۔ میں نے اسے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ’’اللہ تجھ پر رحم کرے‘‘ کہا تو نمازیوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے انہیں کہا ہائے افسوس اس کی ماں اسے گم پائے۔ تمہیں کیا ہو گیا تم مجھے گھور رہے ہو؟ تو لوگوں نے مجھے چپ کرانے کے لیے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کر دئیے۔ لہٰذا میں خاموش ہو گیا۔ یہاں تک کہ نماز ختم ہوئی تو میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اتنا رحم دل و خوش اخلاق معلم نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا اور نہ میری مذمت کی اور نہ مجھے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بس اتنا فرمایا:
((اِنَّ ہٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، اِنَّمَا ہِیَ التَّسْبِیْحُ وَ التَّکْبِیْرُ وَ قِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ)) [1]
’’بے شک اس نماز میں لوگوں کی باتیں وغیرہ مناسب نہیں بلکہ یہ تو صرف تبیح، تکبیر اور قراء ت قرآن کا مرکب ہے۔‘‘
عفو و درگزر کی متعدد صورتیں ہیں ۔ چنانچہ کفار اور اہل کتاب سے عفو و درگزر کا معاملہ کیے
|