’’بے شک میں تمہارے لیے ایسا ہوں جیسے باپ اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔‘‘
مسلمانوں میں باہمی رحم دلی کے اسباب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْلَہُمْ وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ﴾
(آل عمران: ۱۵۹)
’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((لَا تُزْرِمُوہُ دَعُوہُ -لَا تَقْطَعُوْا بَوْلَہٗ- ثُمَّ یَدْعُوْہُ وَ یَقُوْلُ إِنَّ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْئٍ مِنْ ہٰذَا الْبَوْلِ وَ الْقَذَرِ، إِنَّمَا ہِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلٰوۃِ وَقِرَائَۃِ الْقُرْآنِ، ثُمَّ یَقُوْلُ لِاَصْحَابِہٖ: اِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُبَشِّرِیْنَ وَ لَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ، صُبُّوْا عَلَیْہِ دَلْوًا مِّنَ الْمَائِ، فَیَقُوْلُ الْاَعْرَابِیُّ: اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِیْ وَ مُحَمَّدًا وَ لَا تَرْحَمْ مَعَنَا اَحَدًا، فَیَقُوْلُ الرَّسُوْلُ صلي اللّٰه عليه وسلم : لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا۔))[1]
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھے کہ ایک بدو آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ’’رک جاؤ ، رک جاؤ ۔‘‘ کی آوازیں لگانے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے نہ روکو۔ تم اسے چھوڑ
|