ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تربوی فہم نے عمر کے ابتدائی مرحلے (۷ سال تا ۱۰ سال) میں عدم تشدد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کیونکہ بچے کی نفسیات اور اس کے اخلاق پر مضر تشدد کا برا اثر پڑتا ہے۔ پھر اسی مقام پر بیوی کی تادیب کے لیے موضوع کے اعتبار سے تدرج کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَ اہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا﴾
(النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر نگران ہیں ، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں ، غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں ، اس لیے کہ اللہ نے (انھیں ) محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں موضوع خطا کے اعتبار سے سزا میں تدریج کا درس دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابتدائی مرحلے میں بیوی کو وعظ و نصیحت کے ذریعے اس کی غلطی کا احساس دلانا ضروری ہے۔ پھر بھی اگر وہ اپنی غلطی کی اصلاح نہ کرے تہ بستر علیحدہ کرنے کی تدبیر بتائی گئی ہے، اور آخر میں مارنے کی بابت اجازت دی گئی ہے لیکن وہ بھی مشروط ہے:
۱… ہڈی توڑ مار نہیں ہونی چاہیے۔
۲… بدن کے حساس مقامات اور عزت و کرامت والے مقامات پر مارنے کی
|