طرح اس لیے پڑھی ہے تاکہ تمہیں میری نماز کا علم ہو جائے اور تم میری کامل اقتدا کرو۔‘‘
بعض اوقات لوگوں کے نزدیک عجیب و غریب اور غیر معروف نمونہ پیش ہوتا ہے۔ جس سے وہ مانوس نہیں ہوتے۔ بلکہ عموماً وہ اس کے برعکس سے مانوس ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی شادی زید کی مطلقہ سے کروانے کا ارادہ کیا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ بولا بیٹا (متبنّٰی) بنایا ہوا تھا۔ تاکہ عملی طور پر لوگوں کے لیے واضح ہو جائے کہ زید کو طبعی اور قانونی طور پر بیٹے کے ناتے حقوق حاصل نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًاo﴾
(الاحزاب: ۷۳)
’’پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب وہ ان سے حاجت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے (پورا) کیا ہوا ہے۔‘‘
اسی طرح نمونے کی اہمیت ان مواقف مقامات میں واضح ہوتی ہے جہاں قربانی و ایثار جیسے غزوات اور اللہ کی راہ میں اموال خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور سخاوت و شجاعت مشکل اوقات میں صبر و حوصلہ مندی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمدہ نمونہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مربی اور قائد کا عمدہ نمونہ و مثال تھے کہ لوگ جس کی پیروی کرتے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت، شجاعت اور مشکل مراحل حیات میں صبر کی مثالیں دیتے اور وہ انگشت بدنداں ہو جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازدواجی زندگی اور بود و باش میں بھی بے مثال نمونہ و قدوہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی ناگوار باتوں پر صبر کرتے اور انہیں نہایت مناسب و خیر سے لبریز نصائح و توجیہات عطا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
|