ہو جائیں کہ عنقریب آپ انہیں جو کچھ بتلانے والے ہیں ۔ اس کو پوری توجہ سے وہ سنیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی احادیث بکثرت موجود ہیں ۔ جن کے شروع میں ادوات استفہام استعمال ہوئی ہیں ۔ مثلاً:
’’اَ لَا اُحَدِّثُکُمْ‘‘ کیا میں تمہیں حدیث نہ سناؤ ں ۔؟
’’اَ لَا اُخْبِرُکُمْ‘‘ کیا میں تمہیں خبر نہ دوں ؟
’’اَلَا اَدُلُّـکُمْ؟‘‘ کیا میں تمہاری راہنمائی نہ کروں ؟
’’اَلَا اُنَبِّئُکُمْ؟‘‘ کیا میں تمہیں ایک عجیب خبر نہ دوں ؟
’’اَتَدْرُوْنَ؟‘‘ کیا تم جانتے ہو؟
’’اَرَاَیْتُمْ‘‘ کیا تم دیکھتے ہو؟
’’اَلَا تُحِبُّوْنَ؟‘‘ کیا تم ناپسند کرتے ہو؟
’’اَتَرْضَوْنَ؟‘‘ کیا تمہیں پسند ہے؟
اس اسلوب کی حدیث نبوی میں مثالیں بکثرت ہیں جیسے کہ سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَہْلِ الْجَنَّۃِ کُلُّ ضَعِیفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَہْلِ النَّارِ کُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ)) [1]
’’کیا میں تمہیں اہل جنت کے متعلق نہ بتاؤ ں ؟ ہر کمزور اور منکسر المزاج، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کو پورا کر دے، کیا میں تمہیں اہل جہنم کے بارے میں نہ بتلاؤ ں ؟ ہر جھگڑالو، اکڑ اکڑ کر متکبرانہ چال چلنے والا اور متکبر۔‘‘
کبھی کبھار اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مرحمت فرماتے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
|