﴿ وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۷۹)
’’اور تمھارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے اے عقلوں والو! تاکہ تم بچ جاؤ ۔ ‘‘
اسی طرح میدان جہاد و قتال سے فرار کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَo وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰیہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُo﴾ (الانفال: ۱۵-۱۶)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو۔ اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو تو یقینا وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔‘‘
جہاد اور کلمۃ اللہ کی سربلندی سے فرار دراصل اللہ تعالیٰ کی فرض کردہ عبادات کی ادائیگی سے فرار کے مترادف ہے۔ جس کی سزا اللہ تعالیٰ کا غضب اور دائمی جہنم ہے۔
دوسرے پہلو سے اگر دیکھا جائے۔ اگر جہاد جیسے فریضہ کو ترک کر دیا جائے تو مسلمانوں کے علاقوں اور ملکوں پر یلغار کرنے کے لیے کفار کو شہہ ملتی ہے اور گمراہ اور فسادی لوگ شر و فساد پھیلانے سے نہیں چوکتے۔
صدر اسلام میں شہادت یا نصرت مسلمانوں کے امتیازات ہوتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَغُدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَ مَا فِیْہَا)) [1]
|