﴿ اِِذْ تَلَقَّوْنَہٗ بِاَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِکُمْ مَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَتَحْسَبُوْنَہٗ ہَیِّنًا وَّہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌo﴾ (النور: ۱۵)
’’جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔‘‘
مذکورہ بالا حدود کے علاوہ متعدد حدود اور بھی ہیں جن کی عقوبت قرآن کریم اور احادیث رسول میں بیان کر دی گئی ہے۔ جیسے کہ بے گناہ انسان کا قتل، میدان جہاد و قتال سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا وغیرہ۔ جن کا انجام دنیا و آخرت میں رسوائی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ﴾ (النساء: ۹۳)
’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِی الدِّمَائِ)) [1]
’’لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے قتل کا فیصلہ ہو گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے گناہ کے بعد کسی بے گناہ انسان کو ناحق قتل کرنا سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ گویا یہ ربانی عمارت کا انہدام ہے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے وہ سنگ دلی اور حیوانیت سے لبریز ہوتا ہے اور وہ شریر ترین آدمی بن جاتا ہے۔ اس کی سزا، اللہ کا غضب، اس کی ناراضگی اور دائمی جہنم ہے۔[2]
قصاص کے ذریعے قاتل اور معاشرے کے لیے متعد دروس عبرت پائے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
|