حج کے ثواب کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
((اَلْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَہُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَیْسَ لَہٗ جَزَآئٌ إِلَّا الْجَنَّۃُ)) [1]
’’ایک عمرہ دوسرے عمرے تک درمیانی گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور حج مقبول کا اجر جنت ہی ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ اَتٰی ہٰذَا الْبَیْتَ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَمَا وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ))[2]
’’جو اس گھر (بیت اللہ) میں آئے اور کوئی فسق و فجور یا جماع وغیرہ نہ کرے تو وہ اس طرح لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘
یہاں سے معلوم ہوا کہ حج صرف حسن اخلاق کی تحقیق کے لیے نہیں جیسے فسق و فجور اور جماع وغیرہ بلکہ وہ تو مالی اور نفسیاتی جہاد ہے اور دنیوی و مادی تمام تعلقات و روابط اللہ وحدہٗ لا شریک کی رضا کے حضول کے لیے ترک کرنے کا نام ہے اور حج پر جانے والا مسلمان اپنے نفس کو پاک صاف کر کے اللہ عزوجل کی رضا کے حصول کے لیے اور اس سے طلب مغفرت اور دنیوی و اخروی سعادت جمع کرنے کے لیے کرتا ہے۔[3]
چنانچہ اللہ پر ایمان اور انواع و اقسام کی عبادات تکریمات اور حسن اخلاق کی طرف لے جانے والی مضبوط دلیلیں ہیں اور اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں کو خیر کی طرف بلاتا ہے اور انہیں شر سے نفرت دلاتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے۔[4]
اس کا اثر سچ مومن کے کردار میں ظاہر ہوتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادات پورے
|