خلوص دل سے کرے یا دوسروں کے ساتھ حسن و کریمانہ اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللَّہِ لَا یُؤْمِنُ قِیلَ وَمَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ الَّذِی لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ)) [1]
’’اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں ۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون (مومن نہیں )؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہیں ۔‘‘
روایت میں ہے کہ حسن اخلاق گناہوں کو اس طرح تحلیل کرتا ہے جیسے پانی برف کو تحلیل کر دیتا ہے اور بداخلاقی عمل صالح کو اس طرح بگاڑتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو لگاڑتا ہے۔[2]
جب نفس کی نشوونما رذیل تر ہو گی اور اس کا فساد پھیلتا ہے اور اس کے خطرات سامنے آتے ہیں تو آدمی اپنے دین سے دُور ہو جاتا ہے اور اس کا دعویٰ ایمانی جھوٹ موٹ کا بن جاتا ہے۔[3]
اسی لیے خلوص دل سے کی جانے والی عبادت نفس کا تزکیہ کرتی ہے اور اسے بدخلقی سے پاک کر کے اس پر حسن اخلاق کا عکس ڈالتی ہے اور یہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف حسن و طیب فعل کا حکم دیتا ہے۔ اسی لیے جو عمل بھی اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے وہ دنیوی و اخروی سعادت کے حصول کا باعث ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ صرف برے اعمال ہی سے روکتا ہے۔ جن کا ارتکاب اور ان پر اصرار انسان کی دنیوی و اخروی زندگی کے لیے سب سے زیادہ مضر اور سب سے زیادہ قبیح ہوتا ہے اور اللہ جو حکیم و علیم ہے اگر گناہ کی ہلاکت کا علم اسے نہ ہوتا تو پھر اس سے منع کیوں کرتا اور اس کے مرتکب کا عمل ضائع کیوں کرتا اور اس کے مرتکب
|