زکوٰۃ کی ادائیگی سے درحقیقت یہ شعور و احساس حاصل وہتا ہے کہ زکوٰۃ دینے والا اور لینے والا ایک معاشرے کے رکن ہیں ۔ یہ بغض، حسد، نفرت جیسے منفی جذبات فقیر اور مال دار کے اندر سے ختم کرنے کا باعث ہے اور اس کی ادائیگی سے معاشرے میں سے امراض اور بلائیں ٹل جاتی ہیں اور مومن کو مسرت دائمی میسر آ جاتی ہے۔[1]
حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((حَصِّنُوْا اَمْوَالَکُمْ بِالزَّکٰوۃِ، وَ دَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ، وَ اسْتَقْبِلُوْا اَمْوَاجَ الْبَـلَائِ بِالدُّعَائِ وَ التَّضَرُّعِ)) [2]
’’تم اپنے اموال کو زکوٰۃ کے ذریعے پاک یا محفوظ کرو اور صدقہ کے ذریعے اپنے بیماروں کا علاج کرو اور بلاء و مصیبت کی لہروں کا دعا اور آہ و زاری سے استقبال کرو۔‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((بَادِرُوْا بِالصَّدَقَۃِ فِی الْبَـلَائِ لَا یَتَخَطَّاہَا)) [3]
’’بلاء کے نزول سے پہلے تم صدقہ کرو چونکہ بلاء صدقے کو نہیں روند سکتی۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلصَّدَقَۃُ تُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَ تَدْفَعُ مَیْتَۃَ السُّوْئِ)) [4]
’’صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور موت سے بچاتا ہے۔‘‘
زکوٰۃ اموال کی محافظ ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
|