۵۔ اسلامی عبادات مسلمان کے اندر محکم و مجمل فضائل کی قابل قدر مقدار راسخ کر دیتی ہیں ۔ جو کسی خاص سرزمین، یا قوم، یا شخصی مصلحت یا قومی مصلحت یا حکمران جماعت تک محدود نہیں ہوتیں ۔ بلکہ وہ تمام نوع بشریت کے ساتھ معاملہ کرنے میں استعمال ہوتی ہیں ۔ ایک مسلمان اپنی انسانیت اور اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے مسلمان کہلاتا ہے۔ وہ جہاں بھی چلا جائے اور کسی بھی سرزمین پر مقیم ہو۔ کیونکہ اس کا رب واحد اس کی نگرانی کرتا ہے۔ مسلمان چاہے کہیں لیکن وضعی قوانین پر عمل کرنے والے وہ چاہے امریکی ہوں یا برطانوی یا فرانسیسی یا مثلاً روسی ہوں ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے وطن کے اندر رہتے ہوئے چوری، جھوٹ، دھوکہ دہی، قتل و غصب جیسے جرائم کا ارتکاب نہ کرتا ہو۔ لیکن جب اپنے ملک کی حدود سے وہ باہر نکلتا ہے۔ اس بت کے سایے سے دور ہو جاتا ہے جس کے نیچے اس نے پرورش پائی اور اس کو مقدس جانا اور اس کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں پہنا ہوا تھا جب اس سے وہ دور ہو جاتا ہے پھر اس سے دوسر ی قسم کے اخلاق و عادات ظاہر ہوتی ہیں ۔ جن کی توقع کسی کو اس سے نہ تھی۔ آپ اسے متکبر، انا پرست، پیٹ پرست، کینہ پرور، حاسد، دھوکے باز، مکار اور لوگوں کے قاتل اور عورتوں اور بچوں یا بوڑھوں پر ترس نہ کرنے والا دیکھیں گے۔ وہ لوگوں کے مال لوٹتا ہو گا اور پاک دامن عورتوں کی عزتیں تار تار کرتا ہو گا۔ اس کے متعلق شاعر کا یہ قول بالکل سچ ثابت ہو گا:
قَتْلُ امْرِیٍٔ فِیْ غَابَۃِ جَرِیْمَۃٍ لَا تَغْتَفِرُ
وَ قَتْلُ شَعْبِ آمنٍ مسألۃ فیہا نظر
’’جنگل بیابان میں کسی آدمی کو قتل کر دینا ناقبل معافی جرم ہے۔ لیکن ایک پرامن نسل انسانی کو تہ و تیغ کر دینا ایسا مسئلہ ہے جو قابل تحقیق ہے۔‘‘
اگر ہم ان مظالم پر غور کریں جو بوسنیا، ہرسک اور کوسووو میں ڈھائے گئے اور جو کچھ چیچنیا اور تیمور وغیرہ میں پیش آ چکا ہے۔ (اور جو کچھ آج کل غزہ فلسطین اور کشمیر میں بربریت اور آگ اور بارود کی ہولناکی پیش آ رہی ہے) ہم درج بالا شعر کا بہترین نمونہ دیکھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ غیر مسلموں کے ہاں دو قسم کے ماپ تول کے پیمانے ہیں جس کی تاریخ بہترین دلیل اور
|