پاتا ہے جو دین کے اصل منبع سے پھوٹتی ہیں اور ایسی آوازوں سے تربیت حاصل کرتا ہے جو مؤذنوں اور مساجد کے منبروں سے اٹھتی ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی وژن سے نشر ہوتی ہیں اور اس کا ماحول اسے جب اسلامی تربیت مہیا کرتا ہے تو اس کی نگاہ صرف نیکی پر پڑتی ہے اور اس کے کانوں سے کوئی ایسی آواز نہیں ٹکراتی جو خلاف اسلام ہو یا اللہ کے غضب کی باعث ہو اور اس کے دل میں معصیت کا خیال بھی نہیں آتا۔ جب تک اسلامی حکومت کی ہیبت نیز مسلم معاشرے کی ہیبت اسے معصیت کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتیں ۔
جب وہ معصیت کا ارتکاب کر لے وہ اسے چھپاتا ہے اور نادم ہوتا ہے اور اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے اور دوبارہ راہ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے اور اگر اس نے اپنے گناہ کو ظاہر نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ پھر وہ اس گناہ سے دور ہو جاتا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت تین طریقوں سے لوگوں کی تربیت کرتی ہے:
۱۔ نفسیاتی تربوی اسلوب:… جو نفس کے اندر سے اٹھتا ہے اس کا محرک خوف الٰہی اور اس کی محبت ہے اور اس کی شریعت پر عمل اس کے غضب، عذاب سے بچاؤ اور اس کے ثواب کی رغبت میں کیا جاتا ہے اور اس اسلوب کا انگارہ بعض لوگوں کے ہاں بجھا ہوا ہوتا ہے یا جس کے دل میں ایمان پختہ نہ ہو وہ اسے مکمل طور پر گم کر دیتا ہے۔ تو پھر اسے اس کا نفس اسلام کے شعائر سے عبث پر ابھارتا ہے اور اسے حرام اموال یا حرام طریقے سے شہوات پرستی کی لالچ دلاتا ہے۔ چونکہ اس کے دل میں مرض نفاق ہوتا ہے تو شریعت ایسے شخص پر شرعی حدود نافذ کر کے اس کی تربیت کرتی ہے۔
۲۔ اجتماعی طور پر:… خیر خواہی اور باہمی طور پر حق کی وصیت اور صبر کی وصیت ہر کوئی دوسرے کو کرتا ہے تو ایک غیرت مند معاشرہ جو اللہ کی شریعت کا پابند ہوتا ہے۔ وہ کسی برائی کو سننے نہیں دیتا اور نہ کسی اصول اسلام کو چھوڑنے پر چشم پوشی کرتا ہے۔ جیسے نماز، زکوٰۃ، روزہ اور جہاد وغیرہ بلکہ اسلامی معاشرہ غافل کو غفلت دور کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اسے اس کی غفلت سے فوراً بیدار کرتا ہے تاکہ وہ اپنا یا اپنی اولاد کی تربیت میں معاون بن جائے۔
|