کرتا ہے۔ یہی وہ شریعت اسلامی کی خصوصیت ہے جو اسے وضعی قانون سے علیحدہ کرتی ہے۔ شریعت نے ہی فرد واحد کو اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت دینے اور سلام کا جواب دینے، تجارتی معاملات، زواج، رضاعت اور طلاق وغیرہ کے آداب سکھلا دئیے۔
۲:… شریعت تمام معاشرے کے لیے اجتماعی ضابطہ مہیا کرتی ہے۔
جب اجتماعی حیثیت سے احکام شریعت کثرت سے نافذ ہوتے ہیں جن کا اعلان وعظوں کے حلقہ جات اور منبروں کے خطبا کرتے ہیں تو ان میں سے کچھ احکام مجتمع کے زبان زد عام ہو جاتے ہیں اور وہ تمام لوگ پہچانتے ہیں تب معاشرہ: سود خوروں ، منشیات استعمال کرنے والوں ، فاسقوں ، اعلانیہ گناہ کرنے والوں ، بدکار عورتوں ، کذاب، منافق اور متکبر وغیرہ لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اسلام مجتمع کی اسی فطری طریقے سے تربیت کرتا ہے اس نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے فریضے کو نہایت منظم انداز میں پیش کیا ہے اور اس نظم کی پابندی نہ کرنے کو معاشرتی ڈھانچہ منہدم کرنے کے مترادف بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۷۹)
وہ لوگ جنھوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا، ان پر داؤ د اور مسیح ابن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے، جو انھوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے، بے شک برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوُا الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُغَیِّرُوْہُ اُوْشِکُ اَنْ یُّعِمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہٖ))[1]
|