طریقوں کی وضاحت ہوتی ہے۔
اسلامی شریعت نہ صرف افراد کی زندگی کو منظم کرتی ہے بکلہ وہ پورے معاشرے کی من حیث القوم اور سیاسی لحاظ سے بھی ایسے منظم کرتی ہے جس کی تفصیل ذیل میں تحریر کی جاتی ہے:
۱:… شریعت افراد کے لیے ضابطہ اخلاق لاتی ہے۔
جب شرعی تعلیمات فرد کے نفس میں راسخ ہوتی ہیں اور اس کے احساس اور شعور میں اخلاقی ضابطے غلبہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ انسان خود بخود اپنے معاملات و مشکلات کا حل اسی اخلاقی ضابطے کی روشنی میں تلاش کرتا ہے۔ جب اس کے سامنے چند مشتبہ معاملات جیسے خرید و فروخت کے بعض مبہم طریقے پیش ہوتے ہیں یا اعلانیہ معصیت کا ارتکاب کرنے والے کی مذمت وغیرہ کرتی پڑتی ہے۔ تاہم یہاں اخلاقی ضابطہ سے مراد دین کا تربوی حکم نہیں کیونکہ دین کا تربوی حکم تجھے کلی طور پر محرمات سے دور کر دیتا ہے۔ لیکن اخلاقی ضابطے سے مراد یہ ہے کہ تیرے اندر سے آواز آتی ہے۔ یہ خرید و فروخت کی حدود ہیں ان سے باہر نکلنا حرام ہے۔ لہٰذا تو ان کے قریب نہ جا۔
اور نگاہ زہریلی تیر کی مانند ہے لہٰذا تو اپنے نفس کو غیر محرم عورتیں دیکھنے سے باز رکھ اور جب تو کسی کو پہچاننے کے لیے مجبور ہو جائے تو پہلی نگاہ تجھے معاف ہے اگر دوسری بار دیکھا تو مجرم ہو گا۔ اسلامی معاشرے میں احکام شریعت کا بنیادی علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا جسے مثلاً خرید و فروخت کے طریقوں میں سے حلال و حرام کی پہچان نہ ہو وہ بازار نہ جائے۔ اس لیے اخلاقی ضابطے کی تربیت علمی حلقوں میں مکمل ہوتی ہے۔
مسلم معاشرے کے تمام افراد اپنی شامیں حلقات علم میں بسر کرتے ہیں ۔ لہٰذا سورج غروب ہونے کے بعد تمام اعمال (محنت و مشقت) ختم کر کے مساجد میں حصول علم کے لیے جمع ہو جاتے ہیں اور جو مساجد نماز کے لیے اپنے دامن کشادہ کر دیتی ہیں وہی مساجد دینی تعلیم و تدریس کے لیے بھی کشادہ ہو جاتی ہیں اور اس ضابطے کا اصل محرک خوف الٰہی ہے۔ لہٰذا کوئی مسلم شریعت سے دور نہیں بھاگتا اور نہ احکام شریعت سے بچنے کے لیے حیلہ سازی
|