Maktaba Wahhabi

96 - 214
مسئلہ مسلمانوں کے اجماع میں بھی نہ ہو تو اپنی رائے بنانے میں اجتہاد کرو ‘ اور یہ مت کہو میں توڈرتا ہو یا میرے اوپر خشیت غالب ہے۔ بے شک! حلال و حرام واضح ہے اور ان کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں ۔ پس تم شک والی چیزوں کو چھوڑ کر ان کو اختیار کر لو جو شک والی نہیں ہیں ۔ ‘‘ ایک اور روایت کا بیان ہے: ’’ أخبرنا أبو عبد اللّٰہ الحافظ نا أبوبکر بن مقسم المقری ببغداد نا أبو العباس أحمد بن یحی النحوی نا ابن شعیب قال: سئل بعض الخلفاء أی شیء یؤید العقل؟ وأی شیء أشد بہ إضرارا؟ قال أما أشدہ تأییدا فمشاورۃ العلماء وتجربۃ الأمور وحسن التثبیت و أشد بہ إضرارا فالا ستبداد والتھاون والعجلۃ۔‘‘[1] ’’ہمیں أبو عبداللہ الحافظ نے خبر دی‘انہوں نے کہا‘ ہمیں أبو بکر بن مقسم بن مقری نے بغداد میں خبر دی ‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ابو عباس أحمد بن یحی نحوی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ابن شعیب نے خبر دیتے ہوئے کہا ہے: کسی خلیفہ سے یہ سو ال ہوا کہ کون سی چیز عقل کے لیے مفید ہے اور کون سی شیء اس کے لیے بہت زیادہ ضرر ر ساں ہے۔ انہوں نے کہا: عقل کی نشوونما میں سب سے زیادہ ممد و معاون علماء کے ساتھ مشورہ کرنا‘ مختلف امورکا تجربہ رکھنااور اچھی طرح ثابت قدم رہنا ہے۔اور اس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ظلم و جبر‘ لاپرواہی اور عجلت ہے۔‘‘ بعض روایات کے بیان کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں اجتماعی مشاورت و اجتہاد کو بطور منہج اپنانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مستقبل کے مسائل کے حل کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی و مشاورتی منہج کو اختیار کرنے کی تلقین کی۔ایک روایت کے الفا ظ ہیں : ’’ حدثنا أحمد قال حدثنا شباب العصفری قال حدثنا نوح بن قیس عن الولید بن صالح عن محمد بن الحنفیۃ عن علی قال قلت: یا ر سول اللّٰہ إن نزل بنا أمر‘ لیس فیہ بیان أمر ولا نھی‘ فما تأمرنی؟ قال: تشاورون فیہ الفقہاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃ ولم یرو ھذا الحدیث عن الولید بن صالح إلا نوح۔‘‘[2] ’’ہمیں أحمد نے بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں شباب عصفرینے بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں نوح بن قیس نے ولید بن صالح سے نقل کیا ہے‘ انہوں نے محمد بن حنفیہ سے نقل کیا ہے‘ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: اے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہمیں کوئی ایسا مسئلہ درپیش آئے کہ جس کے بارے میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مسئلے میں اپنے فقہاء اور عبادت گزاروں سے مشورہ کرو۔ اور کسی ایک شخص کی رائے سے اس میں فیصلہ جاری نہ کرو۔ اس حدیث کو ولید بن صالح سے نوح کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ شاوروا فیہ الفقھاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃ۔‘‘[3] ’’ اس مسئلے میں فقہاء اور پرہیزگاروں سے مشاورت کرواور اس کے بارے میں فرد خاص کی رائے سے فیصلہ نہ کرو۔‘‘ امام نور الدین علی بن أبی بکرالہیثمی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’رواہ الطبرانی ورجالہ موثقون من أھل الصحیح۔‘‘[4]
Flag Counter