Maktaba Wahhabi

153 - 214
پانچواں مرحلہ پانچویں مرحلے میں دو سرے ممالک کے قوانین سے کچھ اخذ کرنا شامل ہے۔أ ستاذ صبحی المحمصانی فرماتے ہیں : ’’وأخیرا فی المرحلۃ الخام سۃ اقتب ست بعض القوانین عن المدونات الغربیۃ فکان ھذا الاقتب اس أحیاناً موفقاً بحیث لم یخالف روح التشریع الاسلامی و أحیانا کان مخالفا لما جاء فی ھذا التشریع۔‘‘[1] ’’ سب سے آخری اور پانچواں مرحلہ مغربی قوانین سے کچھ أخذ کرنا ہے بشرطیکہ یہ ا ستفادہ اسلامی قانون کی روح کے خلاف نہ ہو اگرچہ بعض اوقات وہ اسلامی قانون کے ظاہراً خلاف نظر آ رہا ہو گا۔‘‘ أ ستاذ صبحی المحمصانی نے تدوین کے مراحل میں جو آخری مرحلہ بیان کیا ہے تو یہ ایک بہت ہی نازک و حساس معاملہ ہے۔ کسی اسلامی ریا ست کا قانون بناتے وقت غیر ملکی قوانین سے ا ستفادے کو عقلاً مان لینے سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ قرآن و سنت جامع نہیں ہیں اور ان میں قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل موجود نہیں ہے ۔جب ہم قرآن و سنت کو ایک مکمل ضابطہ حیات مانتے ہیں اور ہمارایہ ایمان ہے کہ قرآن و سنت میں ہر قسم کے قوانین کونصاً یا قیا ساً یا مصلحتاً بیان کر دیاگیا ہے تو پھر اس بات کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ہم قانون سازی کے لیے غیر مسلم ممالک کے مجموعہ قوانین کی طرف رجو ع کریں ۔ دو سری بات ‘ جس کی طرف أ ستاذ صبحی المحمصانی نے اشارہ کیاہے کہ اسلامی ریا ستیں غیر مسلم ممالک کے ایسے قوانین بھی اختیار کر سکتی ہیں جو بظاہر شریعت کے منافی ہوں لیکن وہ شریعت اسلامیہ کی روح کے موافق ہوں ۔ہمارے خیال میں یہ طرز فکر صحیح نہیں ہے۔قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ ظاہر شریعت کا تعین تو شرعی نصوص سے ہو جائے گا‘ شریعت کی روح کا تعین کون کرے گا ؟۔مختلف علماء کے نزدیک ایک ہی مسئلے میں شریعت کی روح ایک نہیں بلکہ کئی ایک ہوں گی۔قانون سازی ہمیشہ ظاہر کے مطابق ہو تی ہے اور اس کا اطلاق بھی ظاہری ا جسام پر ہی ہوتاہے۔ روحوں پر نہ تو قوانین کا اطلاق ہو تا ہے اور نہ ہی کسی روح کی بنیاد پر شریعت کے خلاف قانون سازی ہو سکتی ہے۔ہاں ! اس حدتک یہ بات در ست ہے کہ اسلامی ریا ست میں قانون سازی کے دوران ظاہر شریعت کے ساتھ ساتھ مقاصد شریعت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب قطعاًنہیں ہے کہ مقاصد و مصالح پوری کرنے کے لیے شرعی نصوص کی خلاف ورزی ہی شروع کر دی جائے۔ راجح فقہی مسلک کی قانون سازی کے دواعی و محرکات صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں فقہی اختلاف بہت کم تھا۔ اگر کوئی اختلاف تھا بھی تو اختلاف تنوع تھا نہ کہ اختلاف تضاد۔لوگ روزمرہ زندگی کے معاملات میں ان کے فتاوی اور فیصلوں پر اعتماد کرتے تھے اور اس طرح معاشرے کے مسائل حل ہو رہے تھے۔مابعد کے زمانوں میں فقہاء کا اختلاف بہت بڑھ گیا‘ کئی فقہی مذہب وجود میں آگئے اور پھر ہر فقہی مذہب میں بھی ایک ایک مسئلے کے بارے میں کئی کئی اقوال موجود تھے جس کی وجہ سے راجح‘ مرجوح‘ معمول بہ‘ غیر معمول بہ‘ متروک‘ شاذ‘ غریب‘ مفتی بہ اور غیر مفتی بہ اقوال جیسی اصطلاحات وجود میں آئیں ۔کثرت آراء و افکار اور ایک ہی مسئلے میں شرعی عدالتوں کے قاضیوں کے متضاد فیصلوں نے لوگوں کے دلوں میں شریعت اسلامیہ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر دیے کہ ایک ہی دین میں اس قدر اختلافات کہاں سے آ گئے؟۔لہذا اسلامی فقہ کی قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ دو سرا عصر حاضر میں ججوں کی اخلاقی صورت حال بھی ایسی نہیں ہے کہ عوام الناس امانت‘ دیانتداری‘ عدل و انصاف‘علمی ر سوخ اور اخلاقی اقدار کی پا سداری میں ان پر اعتماد کریں ۔ فتنے اور نفسا نفسی کے اس دور میں اگر قاضیوں اور ججوں کو کسی قانون کے بغیر کھلا چھوڑ دیا گیا تو اس سے
Flag Counter