Maktaba Wahhabi

156 - 214
مسئلے میں نہ تو قانون سازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔اگر فقہ تقدیری کی بنا پر فرضی قانون سازی کرنے کی کوشش کی بھی جائیں تو مسائل تو اس قدر کثیرہیں کہ قانون بناتے بناتے ملکی قوانین کی کتابوں کے انبار لگ جائیں گے اور قانون سازی کا جومقصد تھا یعنی انتہائی اختصار کے ساتھ مقدمات میں قاضیوں کی شرعی رہنمائی کرنا‘وہ فوت ہو جائے گا۔ 4۔ اسلامی تاریخ میں تقریباً ۱۲ سو سال تک کسی قسم کی کوئی تدوین یا تقنین نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود شرعی احکام کا نفاذ انتہائی کامیابی سے ہوتا رہا ہے۔ لہذا سلف کی اس روایت کو ختم نہ کیا جائے۔ 5۔ ایک مرتبہ قانون کے مدون ہوجانے کے بعد اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ شریعت سے ناواقف جج یا وکیل ان الفاظ کی وہ تعبیر کریں جو شرعی احکام یا مقاصد شریعت سے ہم آہنگ نہ ہو۔جبکہ عدم تقنین کی صورت میں قاضی یا جج مجتہد ہو گا اور مقاصد شریعت و قواعد عامہ سے اچھی طرح واقف ہو گا۔ 6۔ عامۃ الناس کو ایک مدون قانون کا پابند بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے لوگوں کو شرعی احکام کی بجائے ان سانوں کے مرتب کیے ہوئے قوانین کا پابند بنادیا۔اور اگر یہ اختیار قاضی کو دے دیا جائے تو اس صورت میں کہنا مشکل ہے کہ آپ نے لوگوں کو انسانی قوانین کا پابند بنا دیا ہے۔ 7۔ قرآن و سنت کے الفاظ میں ایسی جامعیت و عموم ہے جو آنے مسائل و واقعات کو اپنے اندر سمو لیتی ہے جبکہ ان سانوں کا بنایا ہوا قانون اس قدر جامع اور و سعتوں کا حامل نہیں ہو سکتا‘ لہذا بہت سے حالات و واقعات اس مدون قانون سازی کے دائرے سے نکل جائیں گے اور مسائل کی ایک بڑی تعداد میں صورت حال پھر وہی ہو گی کہ قاضی یا جج قرآن و سنت کے براہ را ست مطالعے کے نتیجے میں کوئی حکم تلاش کر رہے ہوں گے۔ پس قانون کی تدوین بھی قاضی کی آزادی و اختیار کو ختم نہیں کر سکتی۔ 8۔ تدوین کے نتیجے میں قانون کو مختلف ضوابط میں ڈھال دیا جاتا ہے اور عموماً قانون ساز کے ذہن میں جو حالات ہوتے ہیں ‘ ان کا جواب اس قانونی ضابطے میں موجود ہوتا ہے جبکہ خارج میں کئی طرح کے حالات پیش آتے رہتے ہیں اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن پر متعلقہ قانونی ضابطے کا اطلاق نہیں ہو رہا ہوتا ہے ۔ پس جب قاضی پر اس معاملے کو چھوڑ دیا جائے گا تو قاضی ان حالات کے مطابق شرعی حکم معلوم کرنے کی کوشش کرے گا۔ 9۔ تدوین کے نقصان و کمی کو پورا کرنے کا بہترین علاج مسلسل قانون سازی ہے اور یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل أمر ہے۔ فقہی قانون سازی کی کوششوں کا ایک مختصر تاریخی جائزہ اسلامی تاریخ میں فقہ اسلامی کو قانونی شکل دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں سے تین بہت معروف ہیں ۔ذیل میں ان پر اجمالی انداز میں روشنی ڈال رہے ہیں ۔ مؤطاامام مالک رحمہ اللہ کی تنفیذ دو سری صدی ہجری میں عبا سی خلفاء کے عہد کے آغاز میں ابن المقفع نے عبا سی خلیفہ أبو جعفر منصور کو ایک خط لکھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ مختلف مسائل میں علماء کے درمیان اختلاف بہت بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے انتشار پیدا ہورہا ہے لہذا اس نے اس خط میں عبا سی خلیفہ کوجو مشورہ دیا‘ وہ یہ تھا کہ کسی فقہی مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے أمیر المؤمنین اس کو اپنے حکم سے نافذ کر دیں ۔ عبد الرحمن عبد العزیز القا سم لکھتے ہیں : ’’ومما ینظر فیہ أمیر المؤمنین من أمر ھذین المصرین وغیرھما من الأمصار والنواحی اختلا ف ھذہ الأحکام المتناقضۃ التی قد بلغ اختلافھا أمراً عظیماً فی الدماء والفروج والأموال۔۔۔فلو رأی أمیر المؤمنین أن یأمر بھذہ الأقضیۃ والسیر المختلفۃ فترفع إلیہ فی کتاب ویرفع معھا ما یحتج بہ کل
Flag Counter