Maktaba Wahhabi

101 - 214
صاحب لکھتے ہیں : ’’ أما المرحلۃ الثانیۃ للشوری والتشاور فی مجال الفقہ: فھی مرحلۃ الاختیار بین المذاھب الاجتھادیۃ المختلفۃ التی یرید الفرد أو ترید الجماعۃ الالتزام بھا و اتباعھا أو تقنین ھا‘ ھذا بلا شک نوع من الاجتھاد الن سبی المحدود بحدود المفاضلۃ بین المذاھب المختلفۃ أو الآراء المختلفۃ فی المذھب الواحد‘ ونفضل أن ینوب عن الأمۃ فیہ مجلس أھل العلم۔ویمکن أن یشترک معھم مجلس أھل الحل و العقد فی حالات معینۃ۔ح سبما ینص علیہ د ستور الشوری۔‘‘[1] ’’فقہ و اجتہاد کے میدان میں مشاورت و شوری کا دو سرا مرحلہ یہ ہے کہ ان مختلف اجتہادی مذاہب میں سے ان اقوال کو اختیار کیا جائے کہ جن کے بارے ایک فرد یا ایک جماعت ان کا التزام ‘ اتباع اور ان کی بنیاد پر قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔ یہ کام بھی بلاشک و شبہ اجتہاد ہی کی ایک قسم ہے جس میں خاص حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے مختلف مذاہب یا ایک ہی مذہب کی مختلف آراء کے مابین تفاضل کیا جاتا ہے۔ہم اس بات کوبہتر سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کی ایک مجلس امت کی نیابت کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خاص حالات میں اہل حل و عقد کی مجلس بھی اس میں شریک ہو سکے جی سے بھی شوری کے د ستور میں مذکور ہو( اس طریقے پر عمل کر لیا جائے)۔‘‘ متغیرات میں اجتماعی اجتہاد زمان و مکان‘ عرف اور مصلحت کے تبدیل ہونے سے اجتہاد میں بھی تبدیلی واقع آ جاتی ہے۔ اس لیے نئے و بدلتے حالات میں نئے اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے۔اجتہاد کا یہ میدان اس اعتبار سے انتہائی نازک ہیں کہ بعض لوگ زمان و مکان اور مصلحت کی تبدیلی کو بنیاد بناتے ہوئے شرعی احکام کو منسوخ یا معطل قرار دے دیتے ہیں ۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والاجتھاد فی ھذا النوع من الأحکام بقدر ما ھومھم فی تحقیقہ لمصلحۃ الأمۃ ومواکبتھا للتطورات والتغیرات فی حیاتھا‘ فھو فی الوقت نفسہ من أخطر الو سائل التی قد ی ستخدمھا من یرید تعطیل الشریعۃ الاسلامیۃ أو التمرد علی بعض أحکامھا بذریعۃ التغیر فی الأحکام لتغیر أ سا سھا‘ فلربما أن أ سا سھا لم یتغیر أو أن أ سا سھا نص و(( الأصل فی النصوص الثابتۃ ھو الدوام))یعنی أنھا لم تجیء فی الأصل لعلاج حالۃ طارئۃ‘ ومراعاۃ ظروف محلیۃ مؤقتۃ‘ بل الأصل أنھا تضع شرعاً دائماً‘ وأحکاماً ثابتۃ لجمیع الأمۃ إلی أن یأذن اللّٰہ لھذہ الحیاۃ بالزوال لھذا وجب الحذر التام من التحلل من النصوص الثابتۃ بدعوی أنھا کانت تعالج حالۃ طارئۃ‘ أو ظروفاً موضعیۃ مؤقتۃ‘ فإذا تغیرت الطروف تغیر الحکم تبعاً لھا‘ فالواقع أن ھذا الموضوع مزلق خطیر تزل فیہ أقدام‘ وتضل أفھام۔لذلک یجب أن یکون الاجتھاد فی ھذا النوع من الأحکام اجتھادا جماعیاً حتی یؤمن معہ من ھوی الاجتھاد الفردی۔‘‘[2] ’’ اس قسم کے احکام میں اجتہادکرنا‘ انسانی زندگی کے تغیرات اور ترقی کی وجہ سے امت مسلمہ اور اس کے مختلف گروہوں کی مصلحت کی خاطر انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ اجتہاد فی الوقت ان خطرناک و سائل میں سے ہے جنہیں وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو شریعت اسلامیہ کو معطل کرنا چاہتے ہیں یا اس کے بعض احکام پر سرکشی چاہتے ہیں اور احکام شرعیہ میں تبدیلی کے ذریعے ان کی ا س اس کو متغیر کرناچاہتے ہیں ۔حالانکہ بعض اوقات حکم کی أ س اس تبدیل نہیں ہوتی یا حکم کی أ س اس کوئی نص ہوتی ہے اور نصوص کے بارے میں یہ ثابت شدہ قاعدہ ہے کہ وہ دائمی ہیں یعنی یہ نصوص وقتی حالات و مسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے یا ان کے علاج کے لیے نہیں آئیں بلکہ درحقیقت یہ ایک
Flag Counter