ہونے والے فقہی کام سے عدم واقفیت کی صورت میں کسی بھی اسلامی ملک کے علماء اپنے اجتہادات اور فتاوی میں کمال اور جان پیدا نہیں کر سکتے۔ مولانا محمد زاہد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اجتماعی اجتہاد کی طرف بڑھنے کے لیے پچھلے صفحات میں اس ضرورت کا ذکر کیا گیا ہے کہ پہلے قدم کے طور پر اس اختلاف منہج وذوق کے وجود کو تسلیم کیا جائے اور ا سے باعث رحمت بھی سمجھا جائے۔ دو سرا قدم اس منزل کی طرف یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہر منہج فکر اور حلقہ فقہ ’کل فی فلک ی سبحون‘ کا مصداق بن کر اپنے اپنے خول میں بند رہے‘ ان کے درمیان ربط و تعلق ہو۔ وہ ایک دو سرے کے فکری و فقہی کام سے واقف ہوں اور اس سے ا ستفادہ کریں ‘ جس طرح اس دور کے فقہاء نے فقہ و افتاء میں کمال و اجتہاد کے لیے دیگر مدار س فقہ کے اقوال سے واقفیت کو ضروری قراردیا تھا‘ ا سی طرح آج کے علماء و فقہاء کے لیے بھی دیگر مکاتب فکر کی آراء سے واقفیت ضروری ہے۔ عالم اسلام میں ہونے والے فقہی و اجتہادی کاموں اور ان کے نتائج فکر سے آگاہی کے بغیر نہ تو کسی کے فقہی و اجتہادی کام میں کمال و جان پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اجتماعی فقہی کاوشوں کی راہ ہی ہموار ہو سکتی ہے۔ آج ذرائع مواصلات کی ترقی نے ایک دو سرے سے ا ستفادے کے اس کام کو آ سان بنا دیا ہے۔‘‘[1]
عالم اسلام کے مغرب یعنی مراکش‘ تیون س‘ الجزائر‘ موریطانیہ اور لیبیا وغیرہ میں اس وقت کیا کچھ علمی کام ہو رہا ہے ‘ برصغیر پاک و ہند کے علماء اس سے ناواقف ہیں ۔ مدار س دینیہ یا اسلامی جامعات کی لائبریریوں میں شاذ ہی کوئی کتاب ایسی نظر آئے جو بلاد مغرب کے فقہاء و علماء کے علمی کام کا نتیجہ ہو۔زیادہ سے زیادہ ہمارے ہاں سعودی یا مصری علماء کی تحقیقات کتابی صورت میں کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اکثر و بیشتر عرب ممالک‘ خلیجی ممالک‘ براعظم افریقہ کے مسلم ممالک ‘انڈونیشیا‘ ملائیشیااور غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمان علماء کی تحقیقات سے آج ہم ناواقف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ باہمی ربط و تعلق کا فقدان ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں اس ربط و تعلق کو بڑھاتے ہوئے علمی دنیا میں بہترین اور معتدل نتائج پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔
تلفیق وجمع بین المذاہب
’ تلفیق بین المذاھب‘ سے مراد ایک مذہب کے ماننے والے علماء کااپنے مذہب کے فتوی کو چھوڑتے ہوئے دو سرے مذہب و مسلک کے فتاوی کے مطابق فتوی جاری کرناتاکہ کسی خاص مذہب کے فقہی اقوال میں اگر عوام الناس کے لیے کوئی تنگی کا پہلو ہے تو اس کو رفع کیا جا سکے۔ اگر کوئی عالم دین اپنی انفرادی حیثیت میں اس عمل کو اپنائے تو عموماً اس کے مذہبی حلقے میں اس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کام اپنے ممالک میں اجتماعی سطح پر بذریعہ اجتماعی اجتہاد کیا ہے اگرچہ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق ایک مجتہدانفرادی حیثیت میں بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ مولانا مفتی رفیع عثمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’حکیم الأمت مولانا أشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ستم ر سیدہ عورتوں کی مشکلات کا فقہی حل تلاش کرنے کے لیے متعدد حضرات کو ’الحیلۃ الناجذۃ‘کی ترتیب کے لیے مقرر فرمایا‘ میرے والد ماجد رحمہ اللہ اور مولانا مفتی عبد الکریم گمتھلوی رحمہ اللہ ان میں شامل تھے۔ اس میں کئی مسائل میں فقہ مالکی پر فتوی دیا گیا‘ لیکن اس فتوی کو شائع نہیں کیا جب تک کہ ہندو ستان کے تمام ارباب افتاء سے مراجعت نہیں ہو گئی‘ اور اصحاب افتاء کی آراء اور تنقیدیں حاصل نہیں ہو گئیں ‘ حرمین شریفین کے فقہاء سے خط و کتابت ہوئی‘ ان تمام مراحل کے بعد اس کو کتابی شکل میں شائع کرایا۔‘‘[2]
متأخرین کی ایک بڑی جماعت نے ’تلفیق بین المذاہب‘کے منہج کو برقرار رکھا ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
|