کتاب و سنت کی طرف لوٹانے کا حکم نہ دیا جاتا۔کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جھگڑے کے وقت اس کی طرف رجوع کا حکم دیں کہ جس کے پاس اس جھگڑے کا کوئی حل نہ ہو۔‘‘
اس ا ستدلال کا بعض لوگوں نے جواب یوں دیاہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ویمکن أن یجاب عن الا ستدلال بالآیات السابقۃ أنھا عامۃ ولیست فی موضوع الإلزام ویصعب القول بأن ما یختارہ العلماء من الأقوال الراجحۃ ھو خلاف الحق أو أننا اذا رجعنا إلی قولھم فإننا نرجع إلی غیر کتاب اللّٰہ و سنۃ ر سولہ صلي اللّٰه عليه وسلم فمن أین أخذ ھؤلاء إذن۔‘‘[1]
’’یہ بھی ممکن ہے کہ ان آیات سے ا ستدلال کا جواب یہ دیا جائے کہ یہ آیات عام ہیں اور الزام کے موضوع میں نہیں ہیں اور یہ کہنا بھی دشوار ہے کہ جن راجح اقوال کو علماء نے تقنین کے لیے اختیار کیا ہے وہ حق کے خلاف ہی ہوں یاجب ہم ان راجح اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم کتاب اللہ اور سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں ۔پ س(غور طلب بات یہ ہے کہ)ان علماء نے یہ اقوال کہاں سے لیے ہیں ؟۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فقہی اقوال کی بنیاد بھی قرآن و سنت اور دو سرے مصادر شریعت ہی ہوتے ہیں ۔ لہذا راجح فقہی اقوال قرآن و سنت کا غیر نہیں ہیں بلکہ ان کی نصوص کا اخذشدہ فہم ہیں ۔لیکن اصل محل نزاع یہ نہیں ہے۔اختلاف اس میں ہے کہ اگر کسی شہری یا علماء کی جماعت کو ریا ستی قانون کے بار ے میں یہ اعتراض ہو کہ یہ شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اس اختلاف کے حل کے لیے معیار کیا ہو گا؟ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ معیار قرآن و سنت ہو گانہ کہ ملکی و ریا ستی قانون۔ پس تقنین کے بعد بھی اگر کسی قانون کے بارے میں یہ اختلاف ہوجائے کہ وہ شرعی ہے یا غیر شرعی تو اس صورت میں اصل مصادر قرآن و سنت ہی ہوں گے۔اور اگر یہی مسئلہ محل نزاع بن جائے کہ تقنین جائز ہے یا حرام تو اس کا تعین بھی قرآن و سنت ہی سے ہو گا۔ہاں ! اگر کسی مسئلے میں مدعی‘ مدعی علیہ اور متعلقہ عدالت کے قاضیوں کا اتفا ق ہو کہ اس بارے میں ملکی قانون شریعت کے عین مطابق ہے تو اس صورت میں یہ اعتراض بھی رفع ہو جاتا ہے۔
تیسری دلیل
حکمران یا امیر کی اطاعت صرف اس صورت میں فرض قرار دی گئی ہے جبکہ ایسی اطاعت معروف کے دائرے میں ہو۔ اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک روایات میں رہنمائی ملتی ہے۔ ایک روایت میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے أمراء کی اطاعت کو معروف سے مقید فرمایا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’إنما الطاعۃ فی المعروف۔‘‘[2]
’’اطاعت تو صرف معروف کے دائرے میں ہے۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
’’عن أبی سعید الخدری أن ر سول اللّٰہ بعث علقمۃ بن مجزر علی بعث وأنا فیھم فلما انتھی الی رأ س غزاتہ أو کان ببعض الطریق ا ستأذنتہ طائفۃ من الجیش فأذن لھم وأمر علیھم عبد اللّٰہ بن حذافۃ بن قیس السھمی فکنت فیمن غزا معہ فلما کان ببعض الطریق أوقد القوم ناراً لیصطلوا أو لیصنعوا علیھا صنیعاً فقال عبد اللّٰہ و کانت فیہ دعابۃ ألیس لی علیکم السمع و الطاعۃ قالوا بلی قال فما أنا بآمرکم بشیء إلا صنعتموہ قالوا نعم قال فانی أعزم علیکم إلا تواثبتم فی ھذہ النار فقال ن اس فتحجزوا فلما ظن أنھم وابثون قال أم سکوا علی أنفسکم فانما کنت أمزح معکم فلما قدمنا ذکروا
|