جو دنیا میں قانون کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں اور جو ایک مدت دراز تک دنیاکے ایک بڑے حصے پر حکومت کرچکے ہیں ‘ بہت عرصے تک کسی مدون قانون سے بالکل نا آشنا رہے۔ ان کی عدالتیں صرف عرف و رواج پر معاملات کے فیصلے کرتی رہی ہیں ۔ا سی طرح انی سویں صدی کے شروع ہونے سے پہلے تک یورپ مدون قوانین سے تقریباً ناآشنا رہا۔ سب سے پہلاشخص نپولین ہے جس نے تدوین قانون کی طرف توجہ کی ہے۔ اس نے ۱۸۰۴ء میں مشہور قانون نپولین کا نفاذ کیا جس کو یورپ میں تدوین قانون کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہیے۔ اس کے بعد جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں نپولین ہی کے مدون کرائے ہوئے ضابطہ کو تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ اپنالیاگیااور اس آخری دور میں آ کر(یعنی ۱۹۲۶ء)میں ترکوں نے جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے ا سی قانون کو اپنا لیا۔‘‘[1]
بلکہ اب بھی دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جو کسی مدون قانون کے بغیر فیصلے کر رہے ہیں ۔قابل تعجب بات تویہ ہے کہ ان ممالک کی عدالتوں کے ججوں کے بارے میں کسی کویہ سوال پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ وہ اپنی خواہش نفس سے فیصلے کرتے ہوں گے۔مولانا أمین أحسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ اس سے زیادہ دلچ سپ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دو بڑے ملک‘ جو آج تہذیب جدید کے امام سمجھے جاتے ہیں ‘ یعنی انگل ستان اور امریکہ‘انی سویں صدی کی اس تحریک تدوین سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے بلکہ بد ستوراپنے ا سی عرف و رواج والے طریقہ پر قائم ہیں جو ان کے ہاں قدیم سے جاری ہے۔ا سی کے مطابق ان کی عدالتیں سارے معاملات کے فیصلے کر رہی ہیں اور ان کا کام بے روک ٹوک جاری ہے۔ ان کے سامنے کوئی مدون ضابطہ قانون نہیں ہے۔کیا اس صورت حال کی بنا پر یہ کہاجا سکتا ہے کہ انگل ستان اور امریکہ کی عدالتیں بالکل من مانے فیصلے صادر کرتی ہیں اور ججوں کی خواہشات کے سوا وہاں کوئی اصول انصاف نہیں ہے؟یا ان کی عدالتوں کے فیصلوں میں ہم رنگی اور یک سانی کی بجائے انتشار ہے؟یاان کی عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں وہ ان قانونی تصوارت کے مطابق نہیں ہوتے جوان ملکوں میں پائے جاتے ہیں ؟ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو وہ ان ملکوں کی عدالتوں کے طریقہ کار اور انکے طریقہ عدل و انصاف سے بالکل ناواقف ہے۔‘‘[2]
عدم تقنین کی صورت میں معاملہ ایسا نہیں ہو گا کہ قاضی کسی بھی چیز کے پابند نہ ہوں بلکہ وہ بہت سے ایسے اصولوں کے پابند ہو گے جو فقہی مذاہب میں متفق علیہ ہیں ۔مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’اگر محض عرف و رواج کو ا س اس بنا کر انگل ستان اور امریکہ کی عدالتوں کو مطلق العنانی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے تو اس سے بدرجہا اقرب یہ بات ہے کہ کتاب و سنت کے نصوص‘ أئمہ مجتہدین کے اجتہادات اور ان کے مسلمہ اصول اجتہاد کا پابند بناکر اسلامی عدالتوں کو ہر قسم کی مطلق العنانی سے محفوظ کیا جا سکے۔اور بغیر کسی مدون قانون کی موجودگی کے ملک کے نظام عدالت کواسلامی تصور کے مطابق چلایا جا سکے۔اگر اس میں تھوڑی بہت خرابیاں پیداہو گی تو یہ ا سی طرح کی خرابیاں ہوں گی جن سے کوئی نظام بھی پاک نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘[3]
چوتھی دلیل
وہ تمام آیات اور روایات بھی تقنین کے دلائل کے طور پر ذکر کی جاتی ہیں جن میں اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ الأدلۃ الدالۃ علی طاعۃ ولی الأمر ومنھا قولہ تعالیٰ ﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّ سوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم﴾ ویستدل المجیزون لل تقنین کذلک بالأحادیث الواردۃ لطاعۃ ولی الأمر لقولہ صلي اللّٰه عليه وسلم ’’السمع والطاعۃ علی المرء فیما أحب أو کرہ إلا أن یأمر بمعصیۃ فإن أمر بمعصیۃ فلا سمع
|