Maktaba Wahhabi

126 - 214
جماعیاً‘ ویصعب علی فرد ا ستیعاب کل ما تتطلبہ تلک القضایا من علوم ومعارف‘ وتکون الرؤیۃ الفردیۃ فی ھذہ القضایا قاصرۃ‘ فلربما نظر إلی تلک القضیۃ المعقدۃ والمتشعبۃ من زاویۃ وأھملت بقیۃ الزوایا فیأتی الحلم قاصرا۔‘‘[1] ’’اکثر و بیشتر جدید مسائل کو اس قدر مختلف حالات اور تنوعات نے گھیرا ہوتا ہے اوران مسائل کا دو سرے علوم و واقعات کے ساتھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ اجتماعی جتہاد کے بغیران قضایا کے جمیع پہلوؤں اور متعلقات کے احاطے پر قدرت حاصل نہیں ہوتی۔اکیلے شخص کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ان مسائل سے متعلقہ جمیع علوم و فنون کا احاطہ کر سکے۔ لہذا ان مسائل میں انفرادی اجتہادی آراء عموماً کوتاہی پر مبنی ہوتی ہیں ۔ پس بعض اوقات ایک عالم دین ان پیچیدہ اور الجھے مسائل میں ایک پہلو کو مدنظر رکھتا ہے تو دو سرا پہلو أوجھل ہو جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے ناقص رائے سامنے آتی ہے۔‘‘ بعض اوقات فقہ الواقع کا صحیح فہم نہ ہونے کے سبب سے علماء کے لیے انفراد ی اجتہاد میں خطا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور کسی حتمی رائے تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’دو سری طرف علمائے کرام کا یہ طرز عمل بھی محل نظر ہے کہ محل سے ناواقفیت یعنی متعلقہ مسئلہ کے مالہ و ما علیہ اور اس کے حوالے سے مروجہ عرف و روایات سے عدم آگاہی کے خلا کو متعلقہ شعبہ کے کچھ افراد سے پوچھ گچھ کی صورت میں پُر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور حالات زمانہ اور مروجہ عرف و روایات سے اس درجہ کی ’’عملی ممار ست‘‘ کوضروری نہیں سمجھا جا رہا جو کسی زمانے میں ہمارے فقہاء کا طرہ امتیاز ہوتی تھی۔ مثال کے طور عبادات اور لاؤڈ سپیکر کے جواز و عدم جواز کی بحث پر ایک نظر ڈال لیجیے جس میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنے میں ہمیں کم و بیش ربع صدی کا وقت لگااور اگر اس کے اسباب کا تجزیہ کریں تو سب سے بڑا سبب وہی لاؤڈ سپیکر کے تکنیکی معاملات’’ عملی ممار ست‘‘ کا فقدان قرار پائے گا جس نے ہمیں ربع صدی تک تکنیکی بحث میں الجھائے رکھا۔‘‘[2] و سائل حمل و نقل کا ارتقاء أئمہ سلف کے دور میں و سائل حمل و نقل بہت کم تھے۔ ایک سے دو سرے شہر سفر کرنے کے لیے سینکڑوں میل کا فاصلہ اونٹوں ‘ گھوڑوں اور خچروں پر مہینوں میں طے کیا جاتا تھا۔ اس لیے ایک شہر کے علماء کے لیے ایک جگہ جمع ہونا تو کسی قدر ممکن تھا لیکن مختلف اسلامی شہروں کے علماء و مجتہدین کا جمع ہو کر کوئی فقہی مجلس قائم کرنااور اس مجلس کے ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر اجل اس منعقد کرناایک بہت مشکل أمر تھا۔ عصر حاضر میں ذرائع حمل و نقل میں انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے تمام یا اکثر ممالک کے علماء کو ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر جمع کرنا بہت ہی آ سان اور سہل ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک جگہ جمع ہوئے بغیر بھی کسی فقہی مجلس کے انعقاد کے امکانات آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ‘ ٹیلی فون‘ موبائل‘ کمپیوٹر اور کیبل وغیرہ نے باہمی رابطے کو بہت ہی آ سان کر دیا ہے۔ ہوائی جہاز نے ایک ملک سے دو سرے ملک بلکہ ایک بر اعظم سے دو سرے بر اعظم تک کے سفر کو بھی آ سان کر دیا ہے۔ماضی میں جہاں انسان مہینوں کی مسافت طے کرنے کے بعد پہنچتا تھا‘ آج وہاں گھنٹوں میں پہنچا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمدالد سوقی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فإن واقعنا المعاصریقتضی منا اھتماماً خاصاً بالاجتھاد الجماعی لأمرین: أولاً: تی سیر لقاء الفقھاء مھما تناء ت الأقطار والدیار فقد یسرت و سائل المواصلات العصریۃ ھذا اللقاء۔وإذ ا کان للعالم کلہ منظمۃ أممیۃ تنظر فی المشکلات الدولیۃ وتتخذ القرارات بشأنھا‘ فإن العالم الاسلامی خلیق بہ أن یکون لہ مؤتمر فقھی‘ یلتقی فیہ أئمۃ الفقھاء‘ لیبحثوا فی کل ما یھم الأمۃ الیوم‘ وفق
Flag Counter