ذلک للنبی صلي اللّٰه عليه وسلم فقال ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم من أمرکم منھم بمعصیۃ اللّٰہ فلا تطیعوہ۔‘‘[1]
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے علقمہ بن مجزرکو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا اور میں بھی اس لشکر میں شامل تھا پس جب لڑائی ختم ہونے کو آئی یا وہ ر ستے میں تھے تو لشکر میں سے ایک گروہ نے ان سے اجازت چاہی تو حضرت علقمہ بن مجزر رضی اللہ عنہ نے ان کو جازت دے دی اور ان پر عبد اللہ بن حذافہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں بھی ان لوگوں میں شامل تھاجنہوں نے اس کے ساتھ مل کر جنگ لڑی ۔ جب ہم ر ستے میں تھے توکچھ لوگوں نے آگ جلائی تاکہ اس سے حرارت حاصل کر سکیں یا اس پر کچھ کھاناتیار کر سکیں ‘تو حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا:اور وہ ایک ہن س مکھ آدمی تھے‘کیا تمہارے لیے میری بات کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں ہے؟تو ان کے باقی ساتھی کہنے لگے :کیوں نہیں !حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا :میں جو بھی تمہیں حکم دوں گا کیا مانو گے؟ انہوں نے کہا:ہاں تو حضر ت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں تمہارے اوپر سختی کروں گا اگر تم اس آگ میں نہ کودے ۔توکچھ لوگوں نے کہا : پس تم( اس آگ میں کودنے کے لیے )تیار ہو جاؤ۔ پس جب حضرت عبد اللہ بن حذافہ کو یقین ہو گیا کہ وہ لوگ اس میں کودنے والے ہیں تووہ کہنے لگے:ٹھہرے رہو!میں توتمہارے ساتھ صرف مزاح کر رہا تھا۔ پس جب ہم وا پس آئے تو بعض افراد نے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعے کا تذکرہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس جو بھی تمہیں اللہ کی نافرمانی کاحکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرو۔ ‘‘
پس تقنین کی صورت میں اگر کوئی جج کسی مسئلے میں ریا ستی قانون کو’ معروف‘ کی بجائے’ منکر ‘خیال کرے تو اس کے لیے اس قانون کے مطابق فیصلے کرنا لازم نہ ہوگا۔
اس دلیل کاجواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی مسئلے میں تقنین نہ بھی ہو تو اس صورت میں بھی توامکان ہے کہ ایک شہری یاعالم دین کے نزدیک ایک فعل معروف ہو جبکہ کسی قاضی یا جج کے ہاں اس فعل کا شمار منکرات میں ہوتا ہو۔تو پھر اس قاضی یا جج کے فیصلے کا الزام اس پر کیوں در ست مانا جائے؟۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ عدم تقنین کی صورت میں اصل مصادر یعنی قرآن و سنت کی طرف رجوع کا حق دونوں کے پاس باقی رہتا ہے جبکہ تقنین کے ذریعے قرآن و سنت کی طرف رجوع کایہ حق قاضی‘ مدعی اور مدعی علیہ سب کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔
چوتھی دلیل
اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قاضی کے بارے میں جہنم کی وعید وارد ہوئی ہے جو حق بات کو پہچاننے کے بعد بھی اس کے خلاف فیصلہ کرے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’القضاۃ ثلاثۃ واحد فی الجنۃ و اثنان فی النار فأما الذی فی الجنۃ فرجل عرف الحق فقضی بہ ورجل عرف الحق وجار فی الحکم فھو فی النارورجل قضی للناس علی جھل فھو فی النار۔‘‘[2]
’’قاضی تین قسم کے ہیں ۔ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو آگ میں ہوں گے۔ پس جو شخص جنت میں جائے گا وہ‘ وہ قاضی ہے جس نے حق کو پہچان کر اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ اور دو سرا وہ قاضی کہ جس نے حق بات کو پہچان کر اس کے خلاف فیصلہ کیاتو یہ شخص آگ میں داخل ہو گا جبکہ تیسرا وہ قاضی کہ جس نے بغیر علم کے فیصلہ کیا تو وہ بھی آگ میں ہو گا۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مجتہد قاضی کسی مسئلے میں حق تک ر سائی کے بعد بھی اس کے خلاف ریا ستی یا ملکی قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرے تو وہ اس وعید میں داخل ہوگا اور اگر کوئی قاضی یا جج شرعی احکام‘ان کے دلائل‘ طرق ا ستنباط‘اختلاف فقہاء اور ان کے اسباب سے
|