Maktaba Wahhabi

190 - 214
ناواقف ہو اور وہ اس عہدے پر فائز کر دیا جائے اور وہ اپنی جہالت کے باوصف صرف ریا ستی قانون کی تقلید میں ایسے فیصلے کرے تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ و وجہ الا ستدلال بہ: أن الحکم المانع من الإثم ھو الذی یری القاضی أنہ الحق والرأی الراجح المدون لیس بالضرورۃ ھو رأی الحق فی نظر القاضی فإن قضی بخلاف ما عرف أنہ الحق أثم ویلزم منہ منع الإلزام بالتقنین ۔‘‘[1] ’’ان آیات سے وجہ ا ستدلال یہ ہے کہ جو فیصلہ قاضی کو گناہ گار بننے سے روک سکتاہے وہ ‘ وہ فیصلہ ہے جو اس کے مطابق ہو جس کو وہ قاضی حق سمجھتا ہو۔جبکہ راجح مدون قول کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر صورت میں قاضی کی نظر میں حق ہی ہو۔ پس اگر قاضی نے ایک چیز کو حق سمجھ کر اس کے خلا ف فیصلہ دیا تو وہ گناہ گار ہو گا۔ پس اس وجہ سے تقنین کا التزام ممنوع ہو گا۔‘‘ بعض حضرات نے اس کاجواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ کوئی جواب بنتا نظر نہیں آتاہے۔مولاناأمین أحسن اصلاحی رحمہ اللہ تقنین کے حق میں لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’اتباع حق کے نقطہ نظر سے بھی غور کیجئے تو یہی صورت زیادہ بہتر ہے۔اگرچہ اس صورت میں اس کا امکان ہے کہ کوئی قاضی یہ محسوس کرے کہ ایک خاص معاملہ میں مدون قانون شریعت کے حقیقی منشا سے کچھ مختلف ہے اور اس کو اس مدون قانون کی پابندی کے سبب سے ایک ایسا فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے جو اس کے خیال میں منشائے شریعت کے خلاف ہے۔ لیکن ا سے سوچنا چاہیے کہ یہ اس کی ایک انفرادی رائے ہے جو اس مدون ضابطے کے مقابل میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس پروقت کے ارباب حل و عقد کا اجماع ہے‘ یا کم سے کم ان کی اکثریت اس کے شریعت سے اوفق ہونے پر مطمئن ہے۔‘‘[2] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے اس نقطہ نظرمیں کئی ایک غلطیاں ہیں ۔مثلاًان کا یہ کہنا کہ جب کوئی قاضی کسی مدون ضابطے یا قانون کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو وہ اجماع کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔اصلاً تو جدید مسائل میں اجماع کا وقوع ہی ناممکن ہے اور اگروہ قاضی مجتہد ہے تو اس کے اختلاف کے باوجود اجماع کیسے منعقد ہو گیا اور اگر وہ مقلد ہے تو اجتہاد نہیں کرے گااور اجتہاد نہ کرنے کی صورت میں اس کو اختلاف بھی نہ ہوگا۔ ا سی طرح ایک مجتہد قاضی جمہور کی رائے کا کیسے پابند ہو سکتا ہے جب کہ قرآن کی صریح نصوص اس کو یہ حکم جاری کر رہی ہیں کہ وہ اس کی پیروی کرے جس کو وہ حق سمجھتا ہے۔علاوہ ازیں علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک شخص جب کسی شرعی مسئلے میں حق کو پہچان لے تو اس کے لیے اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ولکن من علم أن ھذا أخطأ فیما جاء بہ الر سول صلي اللّٰه عليه وسلم ثم اتبعہ علی خطئہ وعدل عن قول الر سول صلي اللّٰه عليه وسلم فھذا لہ نصیب من ھذا الشرک الذی ذمہ اللّٰہ لا سیما إن اتبع فی ذلک ھواہ ونصرہ باللسان والید مع علمہ بأنہ مخالف للر سول صلي اللّٰه عليه وسلم فھذا شرک یستحق صاحبہ العقوبۃ علیہ ولھذا اتفق العلماء علی أنہ إذا عرف الحق لا یجوز لہ تقلید أحد فی خلافہ۔‘‘[3] ’’لیکن جس شخص کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ اس نے اس مسئلے میں خطاکی ہے کہ جس کو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں پھر بھی اس نے اپنی خطا کی اتباع کی اور اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے پھر گیا۔تو اس شخص کا یہ عمل ایک شرکیہ فعل ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ہے‘ خاص طور پر جب اس شخص نے اس مسئلے میں اپنی خواہش کی اتباع کی ہو اور اپنے ہاتھ و زبان سے اس کی تائید بھی کی ہو باوجودیکہ اس کو یہ علم
Flag Counter