Maktaba Wahhabi

127 - 214
تخطیط علمی مدرو س‘ بعیدا عن أھواء السیا سیۃ والاتجاھات الفکریۃ المتضاربۃ۔‘‘[1] ’’ ہمارا معاصر ماحول ہم سے د ووجوہات کی بنا پر اجتماعی اجتہاد کے اہتمام کا مطالبہ کرتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ گھر اور علاقے جس قدر دورہی کیوں نہ ہو‘ پھر بھی فقہاء کے لیے ایک جگہ مل بیٹھناآ سان ہو گیا ہے۔ اور یہ آ سانی معاصر ذرائع مواصلات سے پیدا ہوئی ہے۔ جیسا کہ ساری دنیا نے مل کر ایک بین الاقوامی تنظیم بنائی ہوئی ہے جو مختلف ممالک کی مشکلات پر غور و فکر کرتی ہے اور ان کے بارے میں قراردادیں پاس کرتی ہے ‘ ا سی طرح عالم اسلام کے لیے بھی یہ ممکن ہے کہ ان کی ایک فقہی کانفرنس ہو جس میں أئمہ فقہاء کی باہم ملاقات ہو۔ فقہاء کی یہ کانفرنس سیا سی خواہشات اور باہم دگرمتضاد فکری رجحانات سے دور رہتے ہوئے ایک طے شدہ علمی لائحہ عمل کے مطابق ان مسائل پر بحث کرے جو آج امت کو درپیش ہیں ۔‘‘ اب تو ویڈیو کانفرنس کا تصور بھی بہت عام ہو گیا ہے۔ جس میں کچھ لوگ ایک جگہ موجود ہیں جبکہ کچھ دو سرے أصحاب ٹیلی ویژن سکرین کے ذریعے اس مجلس کی گفتگو میں شریک ہوتے ہیں ۔ مجلس کی کاروائی کا گھر بیٹھے مشاہدہ بھی کرتے ہیں اور پھر ٹیلی فونک رابطے کے ذریعے اپنی آراء و تجاویز بھی پیش کرتے ہیں ۔ انفرادی اجتہاد کے منفی نتائج کا سدباب بعض علماء کا خیال ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں اجتہاد کے عمل سے اس لیے منع کیاگیاکہ نااہل لوگ مجتہد بن بیٹھیں گے۔فتوی دینے میں جلدی اور جرات کا مظاہرہ کریں گے لہذاخود بھی گمراہ ہوں اور دو سروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ چوتھی صدی ہجری اور مابعد کے أئمہ سلف نے اجتہاد کا انکار اس معنی میں نہیں کیا کہ وہ قیامت تک کے لیے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر یہ خدشہ تھا کہ بغیر اہلیت و صلاحیت کے لوگ مجتہد ہونے کا دعوی کریں گے اور فکری و علمی انتشار میں اضافے کا سبب بنیں گے‘ جبکہ عصر حاضر میں انفرادی اجتہاد کے عمل کو اجتماعیت کے ذریعے منضبط کیا جا سکتا ہے اور أئمہ سلف کی نسبت معاصر علماء میں علم و ضبط کی جو کمی یا نقص پایا جاتا ہے‘ ا سے ایک جماعت کا علم یا ضبط پورا کر سکتا ہے۔ آج انفرادی طور پر کسی شخص کا مجتہد مطلق ہونا تو مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن عالم اسلام کے نامور علماء کی ایک فقہی مجلس مجتہد مطلق کی جگہ کفایت کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وإذا کانت الفتوی بإغلاق باب الاجتھاد قد قصد بھا فی بدایۃ الأمرمنع الاجتھاد الفردی‘ لإبعاد من لی سوا أھلا للاجتھاد‘ فإن الأمر قد أ سیء فھمہ وروج أن المقصود منع الاجتھاد مطلقاً‘ وکان الواجب أن تعالج الفوضی فی الاجتھاد بتنظیمہ‘ وجعلہ فی ید جماعۃ لا ید الأفراد‘ بدلاً من أن یعالج بإغلاق باب الاجتھاد۔‘‘[2] ’’شروع شروع میں اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا جو فتوی جاری کیاگیا تو اس سے مقصود انفرادی اجتہاد پر پابندی لگانی تھی تاکہ نااہل لوگوں کو اجتہاد سے دور رکھا جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کج فہمی عام ہو گئی اور رواج پا گئی کہ سلف کا مقصود مطلق طور پر اجتہاد کی ممانعت تھی۔ جبکہ اصل ذمہ داری یہ تھی کہ اجتہاد کے عمل میں لاقانونیت کو منظم کیا جاتااور یہ عمل ایک فرد کی بجائے جماعت کے ہاتھ میں پکڑایا جاتا‘ بجائے اس کے اس کا علاج یہ کیا جائے کہ اجتہا دکا دروازہ ہی بن کر دیا جائے۔‘‘ ڈاکٹر محمد سلام مدکور حفظہ اللہ عصر حاضر کے مجتہدین اور ان کے اجتہادات کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’حیث بدأ کل من یری فی نفسہ القدرۃ علی النظر الفقھی‘ یلبس ثوب الاجتھاد‘ویخرج علی الناس بالآراء الاجتھادیۃ‘ حتی ولو لم یکن من أھل الاجتھاد‘ ولم تتوفر فیہ أکثر شروط الاجتھاد‘
Flag Counter