نقف علی خلاف فی ھذا بین المتقدمین من فقھاء المذاھب والدلیل علی ذلک أن القاضی مأمور أن یحکم بالحق والحق ما یعتقدہ صحیحاً سواء کان الاعتقاد عن طریق بذل الجھد والنظر أم عن طریق الاقتناع برأی إمامہ والعلم بمذہبہ۔‘‘[1]
’’جب حکمران‘ قاضی پر یہ شرط عائد کرے کہ قاضی اپنے مذہب کے خلاف یا اپنے مذہب کے ضعیف قول کے مطابق فیصلہ کرے تو یہ قید لگانا باطل ہے اور اس مسئلے میں ہمیں علمائے متقدمین میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قاضی کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ہے اور قاضی کے نزدیک حق وہ ہے جس کے بارے میں وہ صحیح ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو ‘چاہے اس کا یہ عقیدہ اس کے اجتہادو غور وفکر کی وجہ سے ہو یااپنے امام کی رائے اور اپنے مذہب کے علم کی بنیاد پرہو۔ ‘‘
ابن عابدین رحمہ اللہ کی عبارت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکمران کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ مجتہد قاضی کو اس کے اجتہاد کے خلاف فیصلوں پر مجبور کرے۔کیا ایک مجتہد قاضی کے لیے کسی مقدمے میں اپنے امام کی رائے کی پابندی لازم ہے یا ا سے اپنے اجتہاد کی پیروی کرنی چاہیے؟۔ اس مسئلے میں امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین رحمہما اللہ کا اختلاف ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ ھل للمجتھد أن یقضی برأی مجتھد آخر أفقہ منہ؟ قال أبو حنیفۃ لہ القضاء بہ وقال الصاحبان لیس لہ القضاء بہ ومرجع الخلاف ھو أن کون أحد المجتھدین أفقہ من غیرہ ھل یصلح مرجحاً؟ عند أبی حنیفۃ یصلح لأن اجتھادہ أقرب إلی الصواب وعند الصاحبین لا یصلح مرجحاً لأن کون العالم أفقہ من غیرہ لیس من جن س الدلی الذی ی ستند إلیہ فی استنباط الحکم۔‘‘[2]
’’کیا مجتہد قاضی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق قاضی مجتہد کو اپنے سے بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے جبکہ صاحبین کے نزدیک اس کی رائے کے مطابق فیصلہ کرناقاضی کے لیے جائز نہیں ہے۔وجہ اختلاف یہ ہے کہ کیا دو مجتہدین میں ایک کا زیادہ فقیہ ہونا کوئی راجح دلیل ہے ؟امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں یہ ایک راجح دلیل ہے کیونکہ اس کا اجتہاد‘ صحت سے زیادہ قریب ہو گا۔جبکہ صاحبین کے نزدیک یہ راجح دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک عالم کا دو سرے سے زیادہ فقیہ ہونا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی طرف استنباط احکام میں رجوع کیا جائے۔‘‘
اس فقہی عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحبین کے نزدیک قاضی مجتہد کے لیے اپنے امام کی تقلید صرف اس صورت میں جائز ہے جبکہ وہ دلیل کی بنیاد پر ہو۔
معاصر علماء کا تقنین کے بارے نقطہ نظر
معاصر علماء میں تقنین کے بارے میں دو موقف پائے جاتے ہیں ۔ایک نقطہ نظر جمہور سعودی علماء کا ہے جس کے مطابق احکام شرعیہ کی تقنین حرام ہے جبکہ دو سرا موقف جمہور مصری فقہاء کا ہے جس کے مطابق تقنین وقت کی ایک ضرورت ہے۔اکثر اسلامی ممالک نے بھی مصر ہی کے منہج کو اختیار کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قانون سازی کی ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن بن أحمدالجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں ـ:
’’ قال بالمنع طائفۃ من المعاصرین ومنھم الشیخ محمد الأمین الشنقیطی والشیخ بکر أبو زید والشیخ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن الب سام حیث نقل بکر أبو زید عن الشیخ الشنقیطی کلاماً طویلاً لہ فی مخاطر التقنین وأما الشیخ فلہ بحث منشور ضمن کتابہ فقہ النوازل وعنوان بحثہ(التقنین والإلزام)والشیخ الب سام رحمہ اللّٰہ لہ ر سالۃ بعنوان( تقنین الشریعۃ أضرارہ ومفا سدہ)وممن قال بالمنع کذلک: ھیئۃ کبار العلماء بالمملکۃ العربیۃ السعودیۃ حیث تناولت موضوع التقنین تحت عنوان(تدوین
|