قانونیۃ یسھل الرجوع إلیھا۔‘‘[1]
’’معاملات‘ عقود اور مختلف افکار سے متعلقہ احکام شرعیہ کو آ سان و جامع بنانے کے لیے قانونی مواد کی صورت میں ڈھالناتا کہ ان کی طرف رجوع آ سان ہو‘ تقنین کہلاتا ہے۔‘‘
شیخ مصطفی الزرقا حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یقصد بالتقنین بوجہ عام جمع الأحکام والقواعد التشریعیۃ المتعلقۃ بمجال من مجال العلاقات الاجتماعیۃ وتبویبھا وترتیبھا وصیاغتھا بعبارات آمرۃ موجزۃ واضحۃ فی بنود ت سمی(موادا)ذات أرقام مسلسلۃ ثم إصدارھا فی صورۃ قانون أو نظام تفرضۃ الدولۃ یلتزم القضاۃ بتطبیقہ بین النا س۔‘‘[2]
’’عام طور پر تقنین سے مراد اجتماعی معاملات سے متعلق کسی شعبے میں وارد شرعی احکام و قواعد کو جمع کرنا‘ ان کی ابواب بندی کرنا‘ ان کو مرتب کرنا اور ان کو مختصر‘ واضح اور سلسلہ وار حکمیہ عبارتوں کی صورت میں ڈھالنا۔پھر ان کو ایسے قانون یا نظام کی صورت میں صادر کرنا جسے کوئی ریا ست لازم قرار دے اور جج حضرات لوگوں کے مسائل کے حل میں اس کے پابند ہوں ۔ ‘‘
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وضع مواد تشریعیۃ یحکم بھا القاضی ولا یتجاوزھا۔‘‘[3]
’’قانون سازی سے متعلق مواد کو وضع کرنا تاکہ جج حضرات اس کے مطابق فیصلہ کریں اور اس سے تجاوز نہ کریں ۔‘‘
ڈاکٹر محمد زکی عبد البر تقنین کی تعریف میں لکھتے ہیں :
’’التقنین عبارۃ عن جمع القواعد الخاصۃ بفرع من فروع القانون بعد تبویبھا وترتیبھا وإزالۃ ما قد یکون بینھا من تناقص وفیھا من غموص فی مدونۃ واحدۃ ثم إصدارھا فی شکل قانون تفرضہ الدولۃ عن طریق الھیئۃ التی تملک سلطۃ التشریع فیھا بصرف النظر عما کان مصدر ھذہ القواعد التشریع أو العرف أو العادۃ أو القضاء أو غیر ذلک من مصادر القانون۔‘‘[4]
’’ تقنین سے مراد قانونی فروعات میں کسی فرع سے متعلق قواعد کی ترتیب و تبویب اور ان میں موجود تضاد و ابہام کو دور کرنے کے بعد ان کو ایک جگہ جمع کرناپھر ان کو ایسے قانون کی شکل میں جاری کرناکہ جس کی پابندی کو ریا ست ‘ انتظامیہ وغیرہ کے ذریعے لازم قرار دیتی ہے۔ تقنین میں عموماً اس بات کا تذکرہ نہیں ہوتا کہ اس قاعدے یا ضابطے کا مصدر کیا ہے‘ قانون ہے یاعرف ہے ‘ عادت ہے یا قضاء یا اس کے علاوہ کوئی اور مصدر ہے۔ ‘‘
درج بالا تعریفات پر اگر ہم غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ تعاریف کئی ایک أجزاء پر مشتمل ہیں جو درج ذیل ہیں :
جمع و تبویب
سب سے پہلے تو زندگی کے کسی ایک گوشے کو منتخب کیا جائے اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کو قرآن و سنت اور أئمہ سلف کی آراء کی روشنی میں جمع کیا جائے۔ اس طرح ہر ہر شعبہ زندگی سے متعلق مسائل کا ایک باب(chapter)بنا دیا جائے گااور اس کے تحت ان مسائل کا حل جمع کیا جائے جو روزمرہ زندگی میں عوام الناس کو پیش آتے ہیں ۔
|