و لا طاعۃ‘‘ فإذا أمر الإمام بالتقنین بہ لدخولہ تحت طاعتہ۔‘‘[1]
’’وہ تمام دلائل جو کہ حکمران کی اطاعت پردلالت کرتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے اہل ایمان!اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے حکمرانوں کی بھی اطاعت کرو۔۔۔ا سی طرح تقنین کے جواز کے قائلین نے ان احادیث سے بھی اس کے جواز پر ا ستدلال کیا ہے جو حکمرا ن کی اطاعت کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ایک مسلمان پر اپنے خلیفہ کی اطاعت سوائے معصیت کے ہر معاملے میں واجب ہے‘ چاہے وہ اس امر کو پسند کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ پس اگر حکمران کسی معصیت کا حکم دے تو پھر اس کی سمع و طاعت نہیں ہے۔ پس جب حکمران تقنین کا حکم دے تو پھر قانون سازی کی جائے گی کیونکہ اس پر عمل بھی اس کی اطاعت میں داخل ہے۔‘‘
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہی بات تو محل نزاع ہے کہ تقنین کا عمل ایک مباح امر ہے یا معصیت ہے۔ جو علماء اس کو حرام قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت کیسے واجب ہو جائے گی جبکہ معصیت میں حکمران کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے۔یہ دلیل تو ان علماء کے حق میں مفید ہو سکتی ہے جو تقنین کے عمل کو جائز سمجھتے ہیں ۔
پانچویں دلیل
تقنین کی تائید میں ایک دلیل یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ موجودہ دور میں مجتہد قاضیوں کا حصول بہت مشکل ہے‘ جبکہ مقلد قاضیوں کو عہدہ قضاء دینے کی صورت میں تقنین ایک لازمی و لا بدی أمر ہے۔شیخ عبد الرحمن الشثری حفظہ اللہ اس وجہ جواز کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ومن ھذہ المبررات ندرۃ وجد قاض بلغ رتبۃ الاجتھاد؟۔‘‘[2]
’’ان وجوہات جواز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے قاضیوں کا وجود نادر ہے جو درجہ اجتہاد کو پہنچتے ہوں ۔‘‘
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک قاضی کا مجتہد ہونا ایک لازمی شرط ہے جبکہ مستحب تو تقریباً تمام علماء نے کہا ہے۔ پس ایسے مجتہد علماء معاشرے میں بکثرت موجود ہیں جو معاصر مسائل کا حل اپنی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں پیش کر سکتے ہیں اور قدیم مسائل میں مختلف فقہی مذاہب کے مدون اقوال کے ذخیرے کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان میں سے راجح و مرجوح‘ شاذ و مفتی بہ‘ معمول بہ و غیر معمول بہ فتاوی وغیرہ میں امتیاز کر سکتے ہیں ۔
ارد گرد معاشرے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں یہ محسوس ہو گا کہ جدید مسائل میں ہر مکتبہ فکر کے علماء و فقہاء کے فتاوی اور رہنمائی موجود ہے۔پاکستان ہی کو لے لیں ‘جب بھی کوئی نیا مسئلہ درپیش آتا ہے تو ہر دو سرے دار العلوم سے اس کے حق میں یا اس کے خلاف فتوی جاری ہو جاتا ہے جیسا کہ اسلامی بینکاری کا جائزہ لے لیں ۔ہر مکتبہ فکر میں اس کے بارے میں دو آراء ہیں اور علماء کی ہر ایک جماعت نے اپنے موقف کی تائید میں کتابیں بھی لکھی ہیں اور فتاوی بھی جاری کیے ہیں ۔ اس کے بعد یہ کہنا کیسے در ست ہو سکتا ہے کہ اس دور میں مجتہد علماء کا حصول ایک ناممکن أمر ہے۔ہاں یہ بات کسی حد تک در ست ہے کہ شاید أئمہ أربعہ جی سے مجتہدین کا اس دور میں فقدان ہو لیکن اجتہاد کی جو شرائط اصول فقہ کی کتابوں میں عموماً بیان ہوئی ہیں ‘ ان پر علماء کی ایک کثیر تعداد اس دور میں بھی پورا اترتی ہے۔
چھٹی دلیل
تقنین کے قائل علماء نے اس کے حق میں ایک دلیل یہ بھی بیان کی ہے کہ قاضی کا مقام امام کے وکیل کاہے اور اگر امام اپنے وکیل کو تقنین کے مطابق فیصلوں کی شرط کا پابند بنائے تو یہ جائز ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
|